دیواروں کی تحریریں زحمت یا روشن خیالی؟
سیدہ قرۃالعين
آج صبح جب میں گھر سے نکلی تو بے شمار دیواروں پر نعرے اور بے شمار تحریریں نظر آئیں۔ کچھ جملے، کچھ ان کہے الفاظ، کچھ پوشیدہ خیالات اور کچھ نعرے۔ یہ وہ تحریریں ہیں جن کے تحت ہم معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی سوچ، ان کی حرکات و سکنات، ان کے اعمال، ان کے فیصلوں کو ہم چاہتے ہیں کہ بدلیں اور جیسے ہم چاہتے ہے کہ صحیح ہونا چاہیئے، لوگ ویسا سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟
ہمارے شہر کی ہر گلی ہر کوچے سے میرا گزر ہوا، یونیورسٹی روڈ سے بے شمار بار گزرتے وقت وہاں کی دیواروں پر قائد اعظم کے بے شمار اقوال لکھے ہوئے ہیں جیسے: "علم بڑی دولت ہے”،”محنت کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا” اور اس طرح کے کئی اقوال ہیں جو صرف دیوار کی رونق نہیں بڑھاتے بلکہ ایک پیغام بھی دیتے ہیں۔
ہم دیواروں پر لکھے ہوئے نعرے اور تحریریں پڑھتے ہیں اور انہیں پڑھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ وہ کیوں لکھے گئے ہیں اور انہیں لکھنے کا مقصد کیا ہے؟ یہ تحریریں ہم سے کیا کہنا چاہتی ہیں؟ اور کیا ہم بحیثیت انسان ان پر عمل کرتے ہیں؟ یا اگر عمل نہیں کرتے تو کیا اسے صحیح مانتے ہیں؟ اور کیا یہ اقوال دوسروں تک پہنچاتے ہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں جو میں اور مجھ جیسے چُنِندہ لوگ خود سے کرتے ہوںگے، کیونکہ اگر یہ سوچ ہر انسان کے ذہن میں آتی تو میں "چُنِندہ” لفظ کا استعمال نہ کرتی۔ کاش ایسا ہو جائے کہ ہم سب کو اتنا شعور ہو کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔
کیا ہم ان پیغامات کو واقعی سمجھتے ہیں؟ اور ان پر عمل کرتے ہیں؟ شاید نہیں، کیونکہ یہ اکثر ہمارے لیے محض ایک نظر انداز کردہ تحریریں بن جاتیں ہیں۔
جیسے روز مرہ کی زندگی میں نظر آنے والے بے شمار اشتہارات جن میں 30 دن میں وزن کم کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں یا 10 دن میں امیر بننے کے نسخے پیش کیے جاتے ہیں۔ ہم ان کو دیکھتے ضرور ہیں، لیکن شاید ہی ان پر دھیان دیتے ہیں۔ اسی طرح، ہم ان اہم پیغامات کو بھی نظرانداز کرتے ہیں جو ہمارے آس پاس موجود ہیں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، جیسے کہ: "یہاں کچرا پھینکنا منع ہے” یا "یہاں گاڑی کھڑی کرنا منع ہے۔” یہ سادہ پیغامات معاشرتی ذمہ داری کا تقاضا ہیں، لیکن ہم انہیں نظر انداز کر کے ان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جس سے نہ صرف ہمارے ماحول کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ معاشرتی نظم و ضبط بھی متاثر ہوتا ہے۔
ان ہدایات پر عمل نہ کرنا ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ "ہسپتال کے قریب ہارن بجانا منع ہے” یا "ایمبولینس کو پہلے راستہ دیں” جیسے پیغامات انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے انتہائی اہم ہیں، لیکن ان پر توجہ نہ دینا ہماری بے حسی کی علامت ہے۔ ہم اکثر سکول کے قریب گاڑی کی رفتار کم کرنے جیسے قوانین کو نظر انداز کر کے بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ دراصل، ایسے پیغامات ہماری زندگی کا اہم حصہ ہیں، اور ان کا احترام کرکے ہی ہم ایک مہذب اور ذمہ دار معاشرت کی تشکیل کر سکتے ہیں۔
ہم یہ بالکل نہیں سوچتے کہ جو تحریریں دیواروں اور اکثر اوقات کچھ سبق آموز تحریریں رکشوں ٹیکسیوں کی پشت پر لکھی ہوئی ہیں، اگر ہم ان پر توجہ دیں اور ان پر عمل کریں تو بہت سے لوگوں کی زندگیاں تکلیفوں سے بچ سکتی ہیں۔
یہ معاشرہ ہماری ہی وجہ سے بدلے گا۔ "میں کیوں کروں؟ کوئی اور کرے” – اس سوچ سے ہم انا کی جنگ تو جیت جائیں گے لیکن بحیثیت انسان ہم ہار جائیں گے۔ جس طرح قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا ملتی ہے اور ہم اس خوف کی وجہ سے قانون نہیں توڑتے، لیکن سزا کے خوف سے قانون نہ توڑنا انسانیت نہیں ہے۔ انسانیت دوسروں کے لیے آسانیاں بانٹنا ہے، ملک اور شہر کو صاف رکھنا ہے۔ ہمیں اپنی اس سوچ کو بدلنا ہے جو صرف اپنے بارے میں ہے۔
یہ سوچ ہمیں اور ہمارے ملک میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے اور یہ ایک کامیاب زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ ہے۔ اپنے آپ کو بدلنے سے ہم ایک دوسرے کے رویوں میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ دیواروں کی تحریریں چاہے وہ کہیں پر بھی نقش ہوں، وہ محض الفاظ نہیں ہیں بلکہ ایک پیغام ہیں جس پر ہمیں عمل کرنا ہوگا اور دوسروں تک پہنچانا ہوگا۔