بلاگزعوام کی آواز

دودھ پلانے والی ماؤں کو کن کن غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

نشا عارف

دودھ پلانے والی مائیں نہ صرف اپنے بچوں کی صحت کے لیے اہم ہیں بلکہ خود ان کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ہائی بلڈ پریشر، زیادہ وزن، اور چھاتی کے سرطان جیسی بیماریوں سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، لیکن اگر وہ متوازن غذا نہیں لیتی تو ان کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہیں۔ ماہر غذائیت پروفیسر بشریٰ خلیل کے مطابق، دودھ پلانے والی ماؤں کو خاص طور پر پانی، نمکیات، وٹامنز، اور آئرن کی کمی کا خطرہ ہوتا ہے۔

دودھ پلانے کی عمل کے دوران، ایک ماں کو اضافی توانائی اور متوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ماں صحت مند ہے تو اس کا بچہ بھی صحت مند ہوگا، کیونکہ ماں کے دودھ میں موجود غذائی اجزا بچے کی نشوونما کے لیے اہم ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین اکثر اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتیں، جس کی وجہ سے وہ مختلف نقصانات کا سامنا کرتی ہیں۔

غذائی ضروریات کی اہمیت

بشریٰ خلیل کے مطابق، دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ متوازن غذا کھائیں، جس میں اناج، سبزیاں، پھل اور پروٹین شامل ہوں۔ روٹی، چاول، دالیں، گوشت، مچھلی، اور خاص طور پر سبز پتوں والی سبزیاں ان کی خوراک کا لازمی حصہ ہونی چاہیئے۔ یہ غذائی اجزا نہ صرف ماں کی صحت کے لیے بلکہ بچے کی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔

دودھ اور دودھ کی مصنوعات

دودھ پلانے والی ماؤں کو اپنی روزمرہ خوراک میں تازہ دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی اشیاء شامل کرنی چاہیئے۔ یہ ان کی کیلشیم کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرتا ہے جو کہ انہیں اور ان کے بچوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ مائیں مناسب مقدار میں گھی یا تیل بھی استعمال کریں تاکہ وہ اپنی غذا کو مزید متوازن بنا سکیں۔

سپلیمنٹس کی ضرورت

اگر کوئی ماں پہلے سے کسی غذائی کمی کا شکار ہے، جیسے آئرن کی کمی، تو اسے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق سپلیمنٹس استعمال کرنے چاہیئے۔ تاہم، اگر وہ صحت مند ہیں تو وہ اپنی متوازن خوراک کے ذریعے اپنی غذائی ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ماں ایک روٹی کھا رہی ہے تو اسے دوسری روٹی اپنے بچے کے لیے بھی کھانی چاہیئے۔

کیلشیم کی کمی

پروفیسر بشریٰ خلیل نے وضاحت کی کہ دودھ پلانے والی ماؤں میں کیلشیم کی کمی کو دور کرنے کے لیے انہیں ہفتے میں کم از کم تین بار دودھ یا دودھ کی مصنوعات لینا چاہیئے۔ اگر کسی کو دودھ پسند نہیں تو دہی یا کھیر جیسی چیزیں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔

پانی اور نمکیات کی کمی

دودھ پلانے کے دوران ماں کو پانی، آئرن، اور نمکیات کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ کمی ماں اور بچے دونوں کی صحت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے اور دودھ کی پیداوار میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ ماں کو چاہیئے کہ وہ دن میں 12 سے 14 گلاس پانی ضرور پئیں، تاکہ ان کی ہائیڈریشن بہتر ہو سکے۔

ماہر غذائیت سے مشورہ

پروفیسر بشریٰ خلیل نے مشورہ دیا کہ اگر دودھ پلانے والی خواتین میں کسی قسم کی کمزوری محسوس ہو، یا ان کا دل کھانے پینے کو نہیں کرتا، تو انہیں جلدی سے ماہر غذائیت سے رجوع کرنا چاہیئے۔ یہ نہ صرف ان کی صحت بلکہ ان کے بچوں کی صحت کے لیے بھی اہم ہے۔

معاشرتی چیلنجز

ہمارے معاشرے میں، خواتین اکثر اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتی ہیں۔ انہیں چاہیئے کہ وہ اپنی ضروریات کو اہمیت دیں اور متوازن غذا کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی صحت کا براہ راست اثر ان کے بچوں کی صحت پر پڑتا ہے۔

دودھ پلانے والی ماؤں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے، یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے غذائی معیار کا خاص خیال رکھیں۔ مناسب خوراک، ہائیڈریشن، اور ماہرین کی مدد لینے سے نہ صرف ان کی صحت بہتر ہوگی بلکہ ان کے بچوں کی نشوونما بھی بہترین ہوگی۔ خواتین کو چاہیئے کہ وہ اپنی صحت کے بارے میں آگاہ رہیں اور ضروری اقدامات کریں تاکہ وہ خود اور اپنے بچوں کی صحت کو محفوظ رکھ سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button