بلاگزعوام کی آواز

امن کا عالمی دن، مگر خیبرپختون خواہ اور بالخصوص قبائلی اضلاع کے لوگ امن سے محروم


 آمنہ

امن کا مطلب صرف عدم تشدد نہیں بلکہ اس میں: تعلیمی، سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی اور اپنی رائے دینے کی آزادی بھی شامل ہے۔ امن ہے تو ترقی ہے خوشحالی ہے۔ امن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ "سورہ بقرہ آیت نمبر 126” میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ پاک سے اپنے شہر کے لیے سب سے پہلے امن کی دعا کرتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر ہر سال 21 ستمبر کو امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ دوسری جنگ کی عظیم کے بعد 1945 کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا، تاکہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ کرا کے آنے والی نسلوں کیلۓ ایک پُرامن ماحول قائم کیا جاۓ۔ عالمی یومِ امن کا قرارداد 1981 میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں پیش ہوا تھا، اور یوں 1982 کو پہلی دفعہ یہ دن منایا گیا۔

اقوام متحدہ کی دنیا بھر میں ترقی اور مسائل سے نمٹنے کے لیے کیلۓ اقدامات حقیقی ہیں، لیکن دوسری جانب حالیہ جنگی واقعات اقوام متحدہ کی امن کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ یہ عالمی سطح پر امن برقرارا رکھنے میں ناکام رہا ہے۔

دنیا کو آج امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اگر دیکھا جائے تو: فلسطین، مقبوضہ کشمیر، برما، عراق، افغانستان، یمن شام، لبنان، نائجیریا، سوڈان، بوسنیا، روہنگیا اور یوکرین سمیت اور بہت سے ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی اور ریاستی جبر جیسے مظالم ہو رہے ہیں ۔

مشرقی وسطی میں واقع فلسطین میں جاری مظالم اس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جنگ سے اموات میں بزرگ جوان اور زیادہ تر معصوم بچے شامل ہوتے ہیں ۔ 1960 کی دہائی میں پاکستان اقوام متحدہ کے امن مہم کا باقاعدہ طور پر حصہ بنا۔ لیکن ہمارے اپنے ملک پاکستان میں صوبہ بلوچستان اور خیبرپختون خواہ میں بالخصوص قبائلی اضلاع کے لوگ امن کے لیے ترس رہے ہیں۔

پچھلے کئی سالوں میں بےتحاشہ بے قصور لوگ اس کا نشانہ بنے اور لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ ان قبائلی اضلاع میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بدامنی کے واقعات ہو رہے ہیں ۔ وہاں کے لوگوں کا اولین مطالبہ امن کی بحالی ہے۔ ان کا یہی مطالبہ ہیں ہمیں معیاری تعلیم چاہیئے۔ گزشتہ مہینوں میں مختلف اضلاع میں امن دھرنے دیے گئے۔ قبائیلی عوام کا کہنا ہے اس دفعہ ہمیں دوبارہ نقل مکانی پر مجبور نہ کیا جائے کیونکہ پچھلی جنگوں کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔

حال ہی میں مسلسل بد امنی کے واقعات کے بعد ضلع باجوڑ میں امن دھرنا دیا گیا، جس میں سیاسی قائدین ، علماء کرام، طلبا اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں نے بھی شرکت کی۔ ان کا مطالبہ یہی تھا کہ ہمیں امن چاہیئے اور اب ہم مزید لاشیں دینے کو تیار نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ رواں برس اقوام متحدہ کی جانب سے25 ویں سالگرہ پر اس کا تھیم ہے "امن کی ثقافت کو فروغ دینا”۔ اس کا مطلب اس دفعہ ہمیں امن کی ثقافت کے ذریعے مل جل کر امن کو فروغ دینا چاہیئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق "امن کی ثقافت” اقدار ،رویوں، طرز عمل اور طرز زندگی کا ایک مجموعہ ہے جو تشدد کو مسترد کرتے ہیں اور تنازعات کو ان کے بنیادی اسباب سے نمٹ کر بات چیت اور گفت و شنید کے ذریعے حل کرتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button