بلاگزعوام کی آواز

قبائلی اضلاع میں کالجز اور یونیورسٹیز کی کمی کس طرح نوجوانوں کو متاثر کر رہی ہیں؟

رعناز

میری ایک بہت ہی قریبی سہیلی ہے۔ وہ فاٹا سے تعلق رکھتی ہے۔ کچھ دنوں پہلے وہ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ وہ بہت ہی زیادہ اداس تھی۔ میں نے وجہ پوچھی کہ میرے علاقے کا رخ کیسے کیا اور اتنی اداس کیوں ہو؟ اس نے بتایا کہ آپ کے علاقے کا رخ اس لیے کیا کہ ادھر کی یونیورسٹیز میں اپنے داخلے کی بات کر سکوں اور معلومات لے سکوں۔ میں نے کہا کہ یہ تو خوشی کی بات ہے تو پھر تم اتنی اداس کیوں ہو؟ میری سہیلی نے بتایا کہ میں نے دو یونیورسٹیز کے چکر کاٹے لیکن دونوں کی ایڈمنسٹریشن والوں نے مجھے ایک ہی جواب دیا کہ ہمارے پاس لیمیٹڈ سیٹس ہوا کرتی ہے جو کہ ہمارے اپنے علاقے کے سٹوڈنٹس کے لیے پوری نہیں ہوتی اس لیے ہماری یونیورسٹی میں قبائلی اضلاع کے سٹوڈنٹس کو یا تو سیٹ ملتی ہی نہیں ہیں اور اگر ملتی ہے تو وہ بھی بہت زیادہ مشکل سے۔

اس کی یہ بات سن کر میں بھی اس کے لیے بہت زیادہ پریشان ہوئی۔ ساتھ ہی ساتھ ذہن میں یہ سوال بھی اٹھ رہے تھے کہ کیا قبائلی اضلاع کے لوگ یونیورسٹی میں پڑھ نہیں پائیں گے؟ ان کے اپنے اضلاع میں ان کے لیے کالجز یا یونیورسٹی کیوں نہیں بنائی جاتی؟ کیوں وہ اعلی تعلیم کے حق سے محروم ہے؟ علم حاصل کرنا تو ایک بنیادی حق اور ضرورت ہے جو کہ سب کے لیے ہیں تو پھر قبائلی اضلاع کے لوگ اس حق سے محروم کیوں؟

زیادہ تر دیکھنے میں آیا ہے کہ قبائلی اضلاع  کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم رکھتے ہیں۔ ان کے لیے تعلیم کسی بھی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ اسی طرح دوسرے کیس میں ان قبائلی اضلاع  میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اپنے بچوں کو پڑھانا لکھانا چاہتے ہیں۔ ان کو ہائیر سیکنڈری لیول تک پڑھا بھی لیتے ہیں مگر بات جب کالج یا یونیورسٹی کی آتی ہے تو ان اضلاع میں سرے سے کالجز اور یونیورسٹیز ہوتی ہی نہیں ہے۔ پھر وہ بچے یا وہ والدین اپنے بچوں کو شہروں میں بھجواتے ہیں اعلی تعلیم کے لیے، مگر افسوس کے ادھر بھی ان کو پڑھنے لکھنے کا موقع یا تو ملتا ہی نہیں ہے اور اگر ملتا بھی ہے تو بہت کم لوگوں کو۔

دراصل یونیورسٹی کے ہر ایک ڈیپارٹمنٹ میں لمیٹڈ سیٹس ہوا کرتی ہے، 40 سے 50 تک۔ اس علاقے کے اپنے لوگوں نے اس میں اپلائی کیا ہوتا ہے۔ پھر جب بات داخلے کی آتی ہے تو پھر موقع اس شہر کے اپنے لوگوں کو مل جاتا ہے اور قبائلی اضلاع کے لوگ رہ جاتے ہیں۔ داخلے کے انتظار میں ان بیچاروں کے ایک اور دو دو سال ضائع ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح اگر ان میں کچھ لوگوں کو موقع مل بھی جاتا ہے تو پھر انہیں اپنے گھر سے دور ہاسٹلز میں رہنا پڑتا ہے۔ وہاں پر انہیں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے گھر والوں سے دور رہنا پڑتا ہے۔ ہوسٹلز کے خرچے اٹھانے پڑتے ہیں۔ اس علاقے کا رہائشی بچہ جس خرچے پر اس یونیورسٹی میں پڑھتا ہے تو کسی دوسرے یا قبائلی اضلا کے بچے اس سے ڈبل خرچے پر ادھر پڑتھے ہیں کیوں؟ کیونکہ انہیں ہاسٹلز کے خرچے بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔

ذرا آپ اس پر خود بھی  سوچے کہ اگر ان قبائلی اضلاع میں کالجز اور یونیورسٹیز کی سہولت موجود ہوتی تو کیا ان بچوں کو اتنے مشکلات اٹھانے پڑتے؟ نہیں کبھی بھی نہیں۔ انہیں بھی ایسے ہی یکساں تعلیم کے مواقع ملتے جو شہروں کے بچوں کو ملتے ہیں۔

لہذا ہمیں اس پر سوچنا ہوگا قبائلی اضلاع کے بچوں کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع دینے ہوں گے۔ ان کے اپنے علاقوں میں ان کے لیے کالجز اور یونیورسٹیز بنانے چاہیئے۔ اگر وہ دوسرے علاقوں کے یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے جاتے ہیں تو ادھر بھی ان کو ایسے ہی موقع ملنا چاہیئے جیسے کہ وہاں کے لوکل لوگوں کو ملتی ہے۔ اسی طریقے سے قبائلی اضلاع کے بچے بھی پڑھ لکھ پائیں گے اور اپنے اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے کام کریں گے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button