بلاگزعوام کی آواز

معلوم نہیں لوگ کیوں جرائم کی خبریں پڑھنا پسند کرتے ہیں؟

رانی عندلیب

آج کل اخباروں میں یا ٹی وی پر سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہاں پر دھماکہ ہوا ہوگا؟ اکثر  تو اخبارات اور ٹی وی میں سب سے نمایاں سرخیاں قتل و غارت کی ہوتی ہیں۔ جہاں تک سرخیوں کا تعلق ہے تو یہ اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں، لیکن آدمی بھی بڑا عجیب ہےجب وہ دھماکوں کی خبریں سنتا ہے تو سوچتا ہے کہ آخر انسان، انسان کے خون کا پیاسا کیوں ہو رہا ہے؟

جب دو تین دنوں سے قتل اور خون کی خبریں نیوز میں نہ ہو تو پھر کوئی خبریں نہیں پڑھتا اور نہ دیکھتا ہے بلکہ الٹا ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ کیوں کچھ دنوں سے ایسی خبریں نہیں آرہی؟ کیا ہوا ہے؟ کیونکہ ہم ایسی خبروں کے عادی ہو چکے ہیں۔

جب صبح ہوتی ہے تو تقریبا تمام لوگ اس انتظار میں اخبار اٹھاتے ہیں کہ اب  سرخیوں میں قتل و خون کی وارداتوں کی ہولناک تفصیلات دیکھنے کو ملے گی، مگر جب ایسی کوئی خبر نہ ملے تو شک میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا معاملہ ہو سکتا ہے؟

انسان اتنا سفاک کیوں ہو گیا ہے؟ کیا انسانیت سے ہمیں دست بردار ہو جانا چاہیئے۔ کیا ہمارا ضمیر مر چکا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سوالوں کا کیاجواب ہونا چاہیئے۔

پچھلے 24 سالوں کو دیکھا جائے تو لوگ منفی خبروں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ خیبر پختوںخواہ میں 2024 سے ایسے حالات ہیں کہ جس سے لوگوں کی سوچ بھی منفی ہوگئی ہے۔ اس میں زیادہ ہاتھ صحافیوں کا ہے جو اخبار کے فرنٹ صحفے پر تشدد کی خبر دیتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں کرنا چاییئے اور نہ ہی نیوز چینل پر قتل و غارت کی فوری خبر دینی چاہیئے۔

اگر صحافی اس قسم کی خبر کو عام خبر کی طرح لے تو لوگوں میں خوف و ہراس زیادہ ہو جاتا ہے کیونکہ دنیا کے اور ممالک میں بھی ایسی خبریں آئے دن ہوتی رہتی ہیں لیکن وہ اس کو اتنا ہائی لائٹ نہیں کرتے جتنا پاکستان والے کرتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔

اگر صحافی کو منع بھی کرے تو سوشل میڈیا والوں کو کوئی نہیں روک سکتا اور ہر کسی کی اپنی رائے ہیں۔ کسی کی سوچ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ہمارے ہاں لوگ زیادہ غصے والے ہیں یا جذباتی بہت ہیں شاید اس وجہ سے ان کی نفسیات  ایسی بن گئی ہیں جس کی وجہ سے ان کو جرائم والے خبریں زیادہ متوجہ کرتے ہیں۔

پھر اس پر میڈیا کی اجتماعی زیادتی کہ یہ سب اخبار کے صفحہ اول پر نمایاں مقام پر چھاپ رہے ہیں۔ جواں سال لڑکی سے اجتماعی زیادتی کی ہولناک سرخی، ٹی وی چینلوں سے نیوز ریڈر بھی بہت زور شور سے اجتماعی زیادتی پر زور دیتے ہوئے، خبر بار بار دہرائی جارہی ہے۔ خواتین خبریں سن رہی ہیں۔ تھر تھر کانپ رہی ہیں۔ بچے ماں باپ سے پوچھ رہے ہیں۔ یہ اجتماعی زیادتی کیا ہوتی ہے؟ میاں بیوی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر خفیف ہو رہے ہیں۔ دادی نانی دادا نانا بھی ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔

اگرچہ اکیسویں صدی کا دور ہے۔ دنیا آگے بڑھ رہی ہے لوگوں میں آگاہی پیدا ہونی چاہیئے اس کو ٹیکنالوجی کی صدی یا انفارمیشن کی صدی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔

کیونکہ ایک سیکنڈ میں خبر پوری دُنیا میں سفر کرتی ہے اس طرح اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان بھی دنیا کا سب سے بڑا تجارتی، صنعتی مرکزاور کئی ملکوں کے برابر آباد یا اس کے علاوہ سب سے زیادہ پولیس اسٹیشن، فوجی تنصیبات، رینجرز کی چوکیاں، ہیڈ کوارٹر، سب سے زیادہ مسجدوں والا شہر، بے شُمار یونیورسٹیاں، فیکٹریاں، دفاتر،کارپوریٹ دفاتر، دینی مدارس، مختلف تہذیبیں، مختلف زبانیں، مختلف ثقافتیں ہیں مگر پھر بھی ان کے بارے میں خبریں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ٹی وی پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اس کے بر عکس آئے دن گھنائونے جرائم،  روح فرسا ڈکیتیاں،  بہیمانہ قتل۔ کی خبریں اخبار کی زینت بنی رہتی ہیں  اور ہم لوگ ان سب کے عادی ہورہے ہیں۔ بے حس ہورہے ہیں۔ انہیں اپنا مقصد خیال کررہے ہیں۔

مجھے حیرت ہے کہ ہماری حکومت اس معاملے پر فوری توجہ کیوں نہیں دے رہی۔ ہر روز قتل کی کوئی نہ کوئی واردات ہوتی ہے اور اب تو کھلی لڑائیاں شروع ہو گئی ہیں۔ ایک پارٹی دوسری پارٹی کے مقابلہ میں آتی ہے۔ پستول چلتی ہیں۔ چھرے گھونپے جاتے ہیں۔ سوڈے کی بوتلیں اور پتھر پھینکے جاتے ہیں۔ بچوں کو اغوا کیا جا رہا ہیں۔ ہراسانی کے واقعات آئے دن دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

غرض جو چیز بھی ہاتھ میں آئے بڑی فراخ دلی سے دوسرے کو مجروح کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ معلوم نہیں۔ لوگ اس طرح کی خبروں کو کیوں پسند کرتے ہیں۔

 

Show More

Rani Andaleeb

رانی عندلیب فری لانس لکھاری ہیں جو کہ قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button