جو بیٹی دوسروں کی جانیں بچانے چلی تھی وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے، خواتین ہر جگہ غیر محفوظ کیوں؟
سعدیہ بی بی
افسوس کے ساتھ بھارت میں ہر روز ایک چراغ بھج رہا ہے ۔ آئے دن ریپ ہونا ایک معمول بنتا جا رہا ہے ۔ 2012 میں قانون تو پاس کیا گیا لیکن آج تک اس پر کوئی عمل نہیں ہوا ۔ بھارت آج بھی 12 سال پیچھے بیٹھا ہے ۔ والدین اپنی بیٹیوں کو یہ تو بولتے ہیں کہ اپنی عزت کی حفاظت کرنا ۔ لیکن وہ اپنے بیٹوں کو تعلیم کیوں نہیں دیتے کہ عورت کی عزت کرو کل کو تمہارے گھر بھی ننھی پری نے جنم لینا ہے ۔
بھارتی ریاست مغربی بنگال کے ایک سرکاری ہسپتال کی خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف بھارت بھر میں کافی شدید احتجاجی مظاہرے جاری۔ احتجاجی مظاہروں کے باعث مودی حکومت مشکلات سے دو چار ہیں جہاں بار بار انصاف کی یقین دہانی کے باوجود بھی عوام کا غصہ قابو میں نہیں آ رہا ۔ سب سے بڑے احتجاج کلکتہ میں ہوئے جہاں خواتین نے پلے کارڈز شمعیں، بینرز اور قومی پرچم تھامے ہوئے متاثرہ ڈاکٹر کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا ۔ دارالحکومت دہلی، ممبئی، کلکتہ اور دیگر شہروں میں احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ ریپ اور قتل کے مقدمے کی تحقیقات مکمل ہونے تک کام پر واپس نہیں آئیں گے ۔
بھارتی ریاست آر جی کار میڈیکل کالج کی 31 سالہ خاتون ٹرینی ڈاکٹر ” مومیتا ” جمعہ کی شب اپنی 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران 20 گھنٹے کی سخت شفٹ کے بعد ہسپتال میں خواتین کے لیے ‘ کامن روم ‘ نہ ہونے کے باعث ہسپتال میں موجود ایک سیمینار ہال میں ہی سو گئی تھیں ۔ جس کے دوران درندہ صفت انسانوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عصمت دری کی اور پھر قتل کر دیا۔
ڈاکٹر مومیتا اپنے گھر سے والدین کو یہ بول کر نکلی تھیں کہ ” نائٹ شفٹ ہے ، ڈاکٹر ہوں جانا تو پڑے گا "۔ اگلی صبح ان کے ساتھیوں کو ہال میں پوڈیم کے قریب ان کی نیم برہنہ لاش ملی ۔ جس پر بہت زیادہ زخم تھے ۔ ڈاکٹر مومیتا کے ساتھ آخری بار جو بات چیت ہوئی تھی تقریبا رات 45 :11 پر ہوئی جس میں اس نے کہا کہ آپ اور پاپا ڈنر کریں اور اپنی دوائیں لے کر سو جائیں، میں ٹھیک ہوں۔
لیکن صبح ان کے والدین کو کال آتی ہے کہ آپ کی بیٹی نے خودکشی کر لی ہے ۔ یہ سنتے ہی وہ گھر سے ہسپتال کی طرف دوڑتے ہیں اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے ۔ لیکن افسوس کے ساتھ جو بیٹی دوسروں کی جانیں بچانے چلی تھی وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے ۔ مقتولہ کے والدین نے بتایا کہ ہسپتال انتظامیہ نے انہیں تین گھنٹے تک ہسپتال کے باہر روکے رکھا اور انہیں انکی بیٹی سے ملنے نہیں دیا ۔
جائے وقوعہ سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون ڈاکٹر کو پہلے قتل کیا گیا اور پھر ان کا ریپ کیا گیا تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق خاتون کو گہری نیند میں ہونے کے باعث پہلے ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور پھر بے دردی سے قتل کیا گیا ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خاتون کو ایک سے زائد افراد نے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا ہے ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹرینی ڈاکٹر کی موت گلا گھونٹنے اور سانس بند کرنے کے نتیجے میں ہوئی ، خاتون کے جسم پر 16 بیرونی زخموں کے نشانات پائے گئے ہیں ۔ جن میں گال ، ہونٹ ، ناک ، آنکھیں ، بازوں اور گھٹنے شامل ہیں ۔ جب کہ 9 اندرونی زخم بھی پائے گئے ہیں ۔ متاثرہ خاتون کی نجی حصوں میں چوٹوں کے نشانات بھی موجود ہیں، ڈاکٹر کی موت سے قبل اس پر تشدد بھی کیا گیا تھا ۔
ڈاکٹر مومیتا دیباناتھ کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی نے نائٹ شفٹ پر جانے سے قبل اپنی ڈائری لکھی تھی کہ وہ اپنے ایم ڈی کورس کے امتحانات میں ٹاپ کر کے گولڈ میڈلسٹ بننا چاہتی ہیں، ساتھ ہی اس میں اپنے میڈیکل کے شعبے میں ہمیشہ خدمت سر انجام دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا ۔ لیکن افسوس کے ساتھ وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گئی ۔ میری بیٹی کبھی واپس نہیں آئے گی، لیکن کم از کم تفتیش تو ٹھیک سے ہونی چاہیئے ۔