دوغلا قانون، غریب جرم کریں تو سزا مگر امیر جرم کریں تو سات خون معاف
حمیراعلیم
کراچی میں ایک خاتون نے نشے کی حالت میں گاڑی کی ٹکر سے دو لوگوں کی جان لے لی اور چار کو شدید زخمی کر دیا۔ جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں ان میں صاف نظر آ رہا ہے کہ خاتون حواسوں میں نہیں ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں ہر جگہ دو قوانین رائج ہیں ایک امیر کے لیے اور دوسرا غریب کے لیے تو اس کیس میں بھی یہ امتیاز ظاہر ہو رہا ہے۔خاتون کسی ٹیکسٹائل مل اونر کی بیٹی ہے۔ اس لیے ان کے وکیل محترم نے فورا یہ ہوائی اڑا دی کہ خاتون کا ذہنی توازن درست نہیں۔
یہ بہانہ نہ صرف ہمارے ہاں بلکہ دنیا بھر میں کارگر رہتا ہے۔ آپ بیسیوں بندے پھڑکا دیں، رپیٹر سے سڑک پر کھڑے لوگوں کو بھون کے رکھ دیں، مسجد، چرچ سکول میں بم پھوڑیں یا چاقو گن سے حملہ کریں، بس یہ ثابت کر دیں کہ آپ کا ذہنی توازن درست نہیں یا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے اور آپ پھانسی، الیکٹرک چیئر یا دیگر سخت سزاوں سے بچ جاتے ہیں۔
چلیے مان لیجیئے کہ وکیل صاحب کا بیان مبنی سچ بر ہے۔ مگر ذرا ٹھہریے یہ کیسا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہے کہ خاتون کئی کمپنیز کی ڈائریکٹر بھی ہیں اور انہوں نے یو کے کا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا ہوا ہے جو کہ خاصی مشکل سے ہی ملتا ہے کیونکہ ان کا ٹیسٹ بڑا کڑا ہوتا ہے کم از کم نوے تو صرف سڑکوں کے ہی نام یاد کرنے پڑتے ہے۔ اب پاکستان تو ہے نہیں کہ گھر بیٹھے ہی لائسنس بن جائے۔
اور اگر خاتون ہوش میں نہیں تھیں تو لینڈ کروزر دے کر انہیں شہر کی سڑکوں پر دندناتے پھرنے کی اجازت کس نے دی کہ وہ جسے چاہے روندتی پھریں۔ ایسے مریضوں کو ہاسپٹلز یا گھر پر انڈر آبزرویشن میں رکھا جاتا ہے سڑکوں پر کھلا نہیں چھوڑ دیا جاتا کہ لو بھئی گاڑی اور جسے چاہو پھڑکا دو۔ میرے خیال میں وکیل صاحب کو اس گھسے پٹے بہانے کی بجائے کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیئے تھا۔
مجھے اس خبر کی صداقت کے بارے میں تو علم نہیں مگر اڑتی اڑتی خبر سنی تھی کہ سابق صدر زرداری صاحب نے سرے محل کیس سے اپنے پاگل پن کا سرٹیفکیٹ پیش کر کے ہی جان چھڑائی تھی۔ نا معلوم اس بات میں کتنی سچائی ہے مگر پاکستانیوں کے ریکارڈ سے لگتا یہی ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہو گا۔ وکیل صاحب نے سوچا ہو گا کہ اگر سابقہ صدر زرداری اس بہانے سے برطانوی عدالتوں سے باعزت بری ہو سکتے ہیں تو میری موکلہ کیوں نہیں۔
ذہنی توازن درست ہو یا نہ ہو پاکستان میں پہلے کسی امیر کو کب سزا ہوئی ہے کہ ان خاتون کو ہو گی۔ ریمنڈ ڈیوس ہو،شاہ رخ جتوئی ہو، ظاہر جعفر یا دیگر امراء کے بچے ہمیشہ باعزت بری ہو جاتے ہیں کیونکہ غریب کو دھمکا کر یا پیسے کے زور پر چپ کروا دیا جاتا ہے اور مقتول کے ورثاء ہمیشہ خون بہا لے کر مجرم کو معاف کر دیتے ہیں۔ چونکہ اس حادثے میں مرنے والے بھی نہایت ہی غریب گھر کے افراد تھے تو یقین واثق ہے کہ وہ بھی مجرمہ کو معاف کر دیں گے۔
حادثہ تو کہیں بھی کسی سے بھی ہو سکتا ہے۔ مگر کم عمر بچوں یا نشے میں دھت افراد کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے سے پہلے ایک لمحے کو یہ سوچ لینا چاہیئے کہ کسی حادثے کے نتیجے میں ان کی اپنی جان بھی جا سکتی ہے۔ چلیں عوام تو آپ کے لیے کیڑے مکوڑے ہیں ان کی جان کی حیثیت ہی کیا ہے مگر آپ کے لخت جگر تو یقینا آپ کے لیے قیمتی ہوں گے۔ تو پلیز عوام پر نہیں اپنے آپ پر رحم کیجئے اور گاڑی ان کی پہنچ سے دور رکھیے۔
عدالت، پولیس اور حکومت کو کچھ نہیں کہنا چاہتی۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں قوانین اورسزائیں موجود ہیں ان پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے مگر صرف اور صرف غریب کے لیے۔ امراء ان سب سے مستثنٰی ہیں اور یہی دو رنگی ہمارے زوال کا سبب ہے۔
جس دن ہمارے ہاں بھی ثبوتوں اور گواہان کی بنیاد پر فیئر ججمنٹس پاس ہونے لگیں۔ مجرموں کو سزائیں ملنے لگ گئیں کوئی بے قصور نہیں مارا جائے گا۔ ہمیں بھی جرائم سے نجات مل جائے گی اور ہماری زندگیوں میں بھی امن قائم ہو جائے گا۔