چارسدہ، گھریلو ناچاقی پر شوہر نے بیوی کی انگلی کاٹ دی
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں شوہر نے گھریلو ناچاقی کی بناء پر بیوی پر تشدد کرکے انگلی کاٹ دی اور ناک بھی زخمی کر دیا جبکہ بیوی کے بھائیوں نے ردعمل کے طور پر اپنی بہن کی شوہر پر تشدد کرکے زخمی کر دیا۔
متاثرہ خاتون مسماۃ توحیدہ بی بی نے تھانہ نستہ پولیس کو بتایا کہ منگل کے روز اُنکے شوہر خادم حسین نے گھر میں اپنی ماں کے ساتھ کام کرنے سے روک رہی تھی جس پر ہم دونوں کے آپس میں تُند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا۔ متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ اسی دوران اُن کا شوہر طیش میں آکر تیز دھار آلہ (ٹوکہ) سے ان پر حملہ کیا جس سے میرا انگوٹھا کٹ گیا۔
خاتون کے بھائی ظریف خان نے ٹی این این کو بتایا کہ اُنکی بہن کے شوہر نے صرف اُن کا انگوٹھا نہیں کاٹا بلکہ اُن کے سر اور جسم پر بھی شدید چوٹیں لگائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس وقت اُن کی بہن پشاور ایل آر ایچ میں زیرعلاج ہے۔
دوسری جانب تھانہ نستہ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزم خادم حسین کے خلاف دفعہ 324 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا مگر تاحال ملزم گرفتار نہیں ہوا ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم دو ماہ قبل دفعہ 302 کے جرم کے الزام میں جیل سے رہا ہوا تھا جس پر کچھ عرصہ قبل راہزنی کے دوران دو افراد کے قتل کا مقدمہ درج تھا۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے ادارے فنڈ فار پاپولیشن ایکٹیویٹیز (یو این ایف پی اے) نے اپنے اعداد و شمار میں بتایا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 32 فیصد خواتین جسمانی تشدد اور 40 فیصد شادی شُدہ خواتین شوہروں کے ہاتھوں زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد کے خلاف پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا میں کئی قوانین موجود ہیں مگر اب بھی خواتین انصاف تک رسائی حاصل نہیں کرسکتیں اور اپنے ساتھ ہونے والے زیادتیوں سے بچنے کیلئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی سرگرم کارکن وردا مظہر نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ خاتون کی ایک چھوٹی سی غلطی مردوں کیلئے انا کا مسئلہ بن جاتی ہے اور پھر تشدد اس حد تک پہنچتا ہے کہ یا تو انہیں قتل کیا جاتا ہے ورنہ انہیں زندگی بھر کیلئے معذور کر دیا جاتا ہے۔
وردا مظہر نے ٹی این این کو بتایا کہ "آپ اگر دیکھ لیں یہ صرف پاکستان یا خیبرپختونخوا کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے مسائل عام ہیں، یہ نئے نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف مسئلے کو دیکھتے ہیں۔ اُن کے حل پر بات نہیں کرتے اگر حل پر بات کرے بھی تو اس حل کو عملی بنانے کیلئے کام نہیں کرتے کیونکہ ہم انتہائی درجے کی لاوارث قوم ہے”۔
وردا کہتی ہے "اگر ان مسائل پر حکومت، فعالیت پسند، سیاسی قیادت یا عوام بحث شروع بھی کریں تو پیچھے سے کوئی نہ کوئی اس کی مخالفت شروع کرکے منفی مہم چلائی جاتی ہے جو میری خیال میں غلط ہے۔ ادھر اگر علماء سے خواتین کے حقوق سُن لئے جائیں تو اتنے حقوق بتائیں گے کہ آپ بھی حیران رہ جائیں گے مگر پھر عملی طور پر خواتین کو ان ہی حقوق سے محروم رکھے جاتے ہیں”۔
وردا کا کہنا ہے کہ بیشتر اوقات خواتین پر ہونے والے تشدد کے معاملات کو ‘خود ساختہ روایات اور غیرت کے نام’ پر دبایا جاتا ہے جسے رپورٹ نہیں کیا جاتا ہے لیکن اگر پھر بھی رپورٹ ہو جائے تو نہ صرف انہیں مزید کاروائی سے روکنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے بلکہ قانونی طور پر بھی مسائل آڑے آجاتے ہیں۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد میں اضافے کی بنیادی وجہ مردوں کی اقتصادی کمزوری، خواتین کے حقوق سے لاعلمی، کمزور ایف آئی آر کی اندراج و تفتیش،عدالتی مسائل کے بارے میں لاعملی اور قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا ہیں۔
خیبرپختونخوا پولیس کی جانب سے 11 اگست کو جاری ہونے والی اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران خیبرپخونخوا میں خواتین پر تشدد کے 8 ہزار 299 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں صرف 168 افراد کو سزائیں ہوئی ہے۔
اسی طرح انسانی حقوق کے عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے واقعات ایک سنگین مسئلہ اختیار کر گیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں تقریباً 1 ہزار خواتین قتل کی جاتی ہیں۔