سبز پرچم، سبز زمین, باجا لینے کی بجائے پودے لگائیں، جشن آزادی کو سبز بنائیں
رانی عندلیب
اگست کا مہینہ آتے ہی، ہر گھر میں بچے اور خواتین 14 اگست کی تیاریوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ بازاروں میں بھی ایک خاص رونق نظر آتی ہے، جیسے سبز اور سفید رنگ ہر طرف پھیل گیا ہوں۔ لوگ اپنے گھروں اور دفاتر کو پاکستانی جھنڈیوں سے سجاتے ہیں۔ بچے اور لڑکیاں سبز اور سفید رنگ کے کپڑے اور چوڑیاں پہن کر 14 اگست کو ایک تہوار کی طرح مناتے ہیں، کیک بناتے ہیں، لیکن اگر بچوں سے پوچھا جائے کہ 14 اگست کو کیا ہوا تھا، تو ان کو اس بات کا علم تک نہیں ہوتا کہ آج کا دن کیوں خاص ہے، نئی نسل کو اس تاریخ کی اہمیت کا علم نہیں ہے۔
اسی دوران، ہر طرف باجوں اور پٹاخوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہر بچے کے ہاتھ میں باجا ہوتا ہے، جو نہ صرف بزرگوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس کا شور ماحول کی آلودگی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ اس پر پابندی لگنی چاہیئے۔
ہمیں نئی نسل کو یہ بتانا چاہیئے کہ پاکستان 14 اگست 1947 کو بے شمار قربانیوں کے بعد وجود میں آیا۔ چاہے ہم اگست میں آزادی کا جشن جتنے بھی جوش و خروش کے ساتھ منائیں، لیکن اس آزادی کے حصول میں دی گئی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے قائدین نے اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں، گھر بار، زمین و جائیدادیں چھوڑیں، لاکھوں مسلمانوں نے خون کے دریا پار کئے، ماؤں نے معصوم بچوں کو مرتے دیکھا، عورتوں نے اپنے سہاگ اجڑتے دیکھے، اور اپنے پیاروں کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی۔ آخرکار مسلمانوں کی محنت رنگ لائی اور 14 اگست 1947ء کو انہیں ایک آزاد ملک ملا۔ الحمدللہ، آج ہم جس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، یہ سب ہمارے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
دوسری طرف، ہمیں موسم کی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں، 14 اگست کو یہ باجے بجانے کی بجائے پودے لگانے پر توجہ دینی چاہیئے۔ درخت لگانے سے ہم کئی ماحولیاتی مسائل سے بچ سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں ہر سال آزادی کا جشن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس سال، اگر ہم جشن آزادی کے موقع پر پودے لگا کر وطن سے محبت کا اظہار کریں، تو یہ جشن مزید خاص ہو جائے گا۔ پشاور میں آمدورفت کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہوا ہے، جس کے منفی اثرات ہمارے صوبے پر پڑ رہے ہیں۔ ان نقصانات سے بچنے کے لیے شجر کاری ایک مؤثر طریقہ ہے۔ اگر ہم سب مل کر اس 14 اگست کو عہد کریں کہ ہم باجوں اور جھنڈیوں کی بجائے پودے خرید کر وطن سے محبت کا اظہار کریں، تو یہ بہتر ہوگا۔ جھنڈیاں اکثر چند دن بعد گندے نالیوں میں پڑی نظر آتی ہیں، جو قومی پرچم کی توہین اور آبی آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔
پودے لگانا ہمارے وطن، والدین، آباؤاجداد، بچوں، یا کسی بھی معزز شخصیت کے نام پر محبت کا بھی اظہار ہے اور اس سے ہمارا گھر یا علاقہ بھی خوبصورت ہو جائے گا۔ چاہے گرمی ہو یا سردی، پودے دیکھ کر دل کو ایک عجیب سی خوشی ملتی ہے۔
پودوں کے فوائد سب کو معلوم ہیں۔ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں، جو انسانوں اور دوسرے جانوروں کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ مختصراً، درخت زندگی کی علامت ہیں۔ بدقسمتی سے، پشاور اور پورے پاکستان میں درختوں کی مطلوبہ تعداد موجود نہیں جو کہ صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق، جولائی اور اگست کا مہینہ درخت لگانے کا بہترین مہینہ ہے۔
کہتے ہے کہ ساون کے مہینے میں سوکھی ٹہنیاں بھی اگ سکتی ہیں۔ تو کیوں نہ ہم اپنے حصے کے درخت لگائیں، اس سے نہ صرف ہمارے گھر اور علاقے خوبصورت ہوں گے، بلکہ ہم موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب سے بھی بچ سکتے ہیں۔