بلاگزعوام کی آواز

چیٹ جی پی ٹی،لوگوں کے لئے آسانی یا تخلیقی سوچ کو پست کرنے کا ذریعہ؟

زینیش رشید

کلاس ٹیچر نے کہا ہے کہ کل اسائنمنٹ جمع کروانے کی لاسٹ ڈیٹ ہے ۔ اور جو رہ گیا تو وہ ایکسیپٹ نہیں کرینگی ۔

کیا؟ اب کیا کرینگے یار! سنو تم مجھے اپنی اسائنمنٹ دے سکتی ہو میں کچھ اس سے اور کچھ انٹرنیٹ سے کر لونگی۔

اس کی کیا ضرورت ہے ۔ چیٹ جی پی ٹی ڈاونلوڈ کر لو وہ اے ٹو زی سب کر دے گا۔

کیا سچ میں ؟

ارے ہاں نہ، میں سے خود بھی تو وہی سے کیا ہے ۔ اور ویسے بھی کون سا میم نے ایک ایک لفظ چیک کرنا ہے۔ چلو پھر تو مسئلہ حل۔

کچھ ایسی ہی گفتگو چیٹ جی پی ٹی کی ایجاد کے بعد سے ہم اپنے روزمرہ کے معمول میں اپنے ارد گرد سن رہے ہوتے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسائنمنٹ کی جگہ کبھی رپورٹ تو کبھی تقریر ، ریسرچ ، یا پھر پریزنٹیشن کا نام لگ جاتا ہے۔ بہر حال اس موضوع کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر چیٹ جی پی ٹی ہے کیا ۔

چیٹ جی پی ٹی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ایک جدید قسم ہے جو کہ پوچھے گئے سوالات کے جوابات چیٹ ک صورت لکھ کر پیش کرتا ہے۔ یہ گوگل اسسٹنٹ، ایلیکسا، اور سری جیسے موجودہ آلات کے برعکس، جو صرف آپکی کہی ہوئی بات کو لکھائی میں بدلتے ہیں، آپ کو ہر قسم کی معلومات فراہم کرتا ہے۔

لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ معلومات کیسے اور کہاں سے آرہی ہیں؟ یہ وہ تمام معلومات ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے انٹرنیٹ پر اپلوڈ ہوئی ہیں پھر چاہے وہ کتابیں ہوں، ویب سائٹس ہوں، ریسرچ پیپرز ہوں، یا پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز۔ یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ وہ تمام ذرائع جو کہ چیٹ جی پی ٹی اپنی معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے ان میں بہت سی تصدیق شدہ نہیں ہیں۔

چونکہ چیٹ جی پی ٹی کی فراہم کردہ معلومات اس قدر جامع اور منظم ہوتی ہیں کہ ایک طالب علم یا پھر کوئی بھی اس کو پڑھنے والا یہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسے اس کا کام چٹکیوں میں ہو گیا ہے۔ لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ معلومات 100 فیصد درست ہوں گی؟

بلکہ یہ سوچے بغیر ہم اکثر اوقات اپنی تفویض شدہ اسائنمنٹ میں وہ چیزیں بھی شامل کر لیتے ہیں جن کا اصل مضمون سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اور اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کی فراہم کردہ تقریباً معلومات درست ہوتی ہیں کیونکہ وہ آپ کے مضمون کے متعلق ہر قسم کی معلومات دے گا۔ مگر چونکہ نہ اسے آپ کے مضمون کا دائرہ اختیار پتا ہے نہ ہی وہ ان ذرائع کو بتا سکتا ہے جس سے وہ معلومات لی گئی ہیں۔ تو اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ درست نہ ہوں۔

حال ہی میں اسی سے متعلق میرا ایک ذاتی تجربہ ہوا کہ جب ایک طالب علم نے اپنی رپورٹ کے سلسلے میں مجھ سے رابطہ کیا اور وہ رپورٹ دیکھنے کے بعد مجھے حیرانی ہوئی کہ رپورٹ کے اندر لکھے ہوئے مواد کا اصل مضمون سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں۔ میرے پوچھنے پر یہ جواب سننے کو ملا کہ یہ چیٹ جی پی ٹی کی بنائی ہوئی آؤٹ لائن کے مطابق بنایا گیا ہے۔ کیا اب ہم چیٹ جی پی ٹی جیسے ذرائع پر اس قدر انحصار کرنے لگے ہیں کہ صحیح اور غلط میں فرق کو بھول جائیں ؟

بے شک چیٹ جی پی ٹی کی بدولت آج ہم بہت سے مشکل موضوعات کو بھی بآسانی سمجھ سکتے ہیں اور یہ کہ اپنے کانسپٹس کلیئر کر سکتے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس پر مکمل طور پر انحصار شروع کر دیا جائے۔ بلکہ اس سے ایک حد تک مستفید ہوا جا سکتا ہے۔ مثلاً آپ کسی ایسے موضوع کو سمجھنا چاہتے ہیں جو آپ کے لیے نیا ہو۔ یا پھر آپ کو کسی مسلہ سے متعلق حل چاہیے ہو تو اس سے مدد لے کر آپ اپنی سوچ کا پہرہ کھول سکتے ہیں ۔

مگر یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کوئی بھی مشین، روبوٹ، یا پھر چیٹ جی پی ٹی جیسے جدید ذرائع انسانوں کو جسمانی طور پر تو کچھ حد تک ریپلیس کر سکتے ہیں پر ذہنی اور عقلی طور پر کبھی بھی نہیں ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چیٹ جی پی ٹی اور اس جیسی کئی دوسری ٹیکنالوجی کی پیدا کردہ ایپلیکیشنز انسان کی ہی پیداوار ہیں۔

آج بھی انسان کے بنائے ہوئے کنٹینٹ کو ہر دوسری چیز پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے تعلیمی ادارے، نشریاتی ادارے، اور کمپنیاں پلیجرازم چیک کرنے کے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی کا بے دریغ استعمال انسان کی تخلیقی سوچ کو پست کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اور ایسے میں نقصان صرف ہمارا اپنا ہے۔

 

Show More

Zeenish Rashid

زینیش رشید کوہاٹ یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور ٹی این این کے ساتھ بلاگر کے طور پر کام کر رہی ہیں
Back to top button