کتاب انسانوں کی بہترین ساتھی مگر پھر بھی کتب بینی سے دوری
نازیہ
بچپن میں سنا تھا کہ کتاب اور انسان بہترین ساتھی ہے مگر اس دور جدید میں انسان جتنا ٹیکنالوجی سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے اتنا ہی انسانوں کا کتابوں سے واسطہ کمزور ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے کتابیں صرف لائبریری اور اہل شوق کی حد تک محدود رہ گئی ہے۔ پرانے زمانے میں ہر گھر میں الماریاں کتابوں سے بھری رہتی تھی جبکہ آج کل تو الماری میں اکا دکا کتابیں نظر اتی ہے اور وہ بھی محض فیشن کے لیۓ رکھی گئی ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آج کل جب بھی یونیورسٹی میں کوئی فنکشن ہو یا کوئی لٹریچر فیسٹیول ہو کتابوں کے سٹالز تو لگے ہوئے ہوتے ہیں مگر بمشکل دو یا تین بندے اس اسٹال پر کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ آج کل کے نوجوان لائبریری یا کتب خانہ تک جانے کے بجاۓ سافٹ نوٹس کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے روایتی تعلیم حاصل کرنے کا طریقہ متاثر ہونے لگا ہے۔ اگر میں اپنا تجربہ بیان کرو تو سبق کتاب کھول کر پڑھنے سے بہتر یاد ہوتا ہے بلکہ اس طرح کرنے سے دماغ میں نقش ہو جاتا ہے۔ ڈیجیٹل طریقے سے سبق یاد کرنے اور ہاتھ میں کتاب پکڑ کر یاد کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر خیر ہر کسی کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔
کتب بینی تو ایک مشغلہ ہے جو انسان کو فضول مشغلوں سے بچاتی ہے اور انسان کے نفسیاتی مسائل کو بھی حل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال 23 اپریل کو کتب بینی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد کتب بینی کے شوق کو اجاگر کرنا اور نوجوانوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ مگر اج کل کے نوجوانوں سے ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کہ ہمارے پاس وقت کی انتہائی کمی ہے جس کی وجہ سے ہم لوگ کتابوں کو وقت نہیں دے سکتے۔ مگر نوجوان یہ نہیں سمجھتے کہ انٹرنیٹ پر اور موبائل پر گھنٹوں برباد کر تے ہے وہ وقت ان کو یاد نہیں رہتا کہ اتنا وقت اس موبائل کو دے کر ہم نے آخر پایا کیا اور سیکھا کیا؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پرانے زمانے میں جب انٹرنیٹ نہیں تھا تو یہی کتاب لوگوں کو معلومات فراہم کرتا تھا جس کی وجہ سے لوگ آج کامیابی کی اس ڈگر پر کھڑے ہیں۔ دنیا میں جہالت کے اندھیرے اس کتاب کے پڑھنے سے ہی ختم ہوئے ہیں۔ دنیا نے جتنی بھی ترقی کی ہے انہیں کتابوں کے پڑھنے سے ملی ہے۔ تو پھر کتاب کی اہمیت سے بھلا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ اور مصروف ترین ممالک نے آج بھی کتابوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ہے۔ کتابوں کے شیدائی اب بھی موجود ہے جو ہر صورت میں اپنا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور انٹرنیٹ کے بڑھتے استعمال کے ساتھ ان شیدائیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
کتاب تو انسان کی بہترین ساتھی ہے۔ سفر ہو، تنہائی ہو یا علم کا حصول ہو لوگ کتاب کو اپنا ساتھی بنا کر پڑھتے ہیں اور یوں ان کے علم میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے اور وقت بھی گزر جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کتب بینی سے یہ دوری کیوں؟
کتب بینی سے دوری کے حوالے سے پشاور سے تعلق رکھنے والی پچیس سالہ سمیرا نے ٹی این این کو بتایا کہ پرانے زمانے کے لوگوں میں اور آج کل کے لوگوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ سمیرا نے بتایا کہ آج کل کے لوگوں میں حوصلہ بالکل بھی نہیں ہے اور ہر کوئی شارٹ کٹ مارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں جس یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں وہاں پر زیادہ تر ہمیں پاور پوائنٹ کی سلائڈز دی جاتی ہے جن کو کیری کرنا اور یاد کرنا ہمارے لیے کافی آسان ہوتا ہے۔ اب تو انٹرنیٹ کا دور ہے ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل ہے جو بھی معلومات ہمیں چاہیے ہوتی ہے وہ انٹرنیٹ میں موجود ہے۔
اسی کتب بینی کے حوالے سے پشاور سے تعلق رکھنے والی 50 سالہ کائنات نے ٹی این این کو بتایا کہ ہمارے زمانے میں کتب بینی کا اپنا ہی الگ مزہ ہوتا تھا مگر آج کل اس انٹرنیٹ کی وجہ سے کتب بینی میں کافی کمی آئی ہے۔ کائنات نے بتایا کہ ہمارے کالج کی لائبریری میں بہت زیادہ رش رہتا تھا کیونکہ جو اسائنمنٹ ہمیں ملتی تھی، تو وہاں پر انٹرنیٹ تو نہیں ہوتا تھا تو ہم اسائنمنٹ کے لیے لائبریری کا رخ کرتے تھے اور وہاں پر ہر قسم کی کتابیں موجود ہوتی تھی جس سے ہمیں فائدہ ہوتا تھا۔
کائنات نے بتایا کہ ترقی کے اس دور میں انٹرنیٹ ایک الگ دنیا ہے جس میں کتابوں کی جگہ برقی کتابوں نے لے لی ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہی کتابیں ہے جو ثقافت، تہذیب، علم اور تاریخ کا خزانہ ہوتی ہے جو ہمیں صدیوں پرانی روایات اور تاریخ سے جوڑے رکھتی ہے۔
آخر میں بس اتنا کہوں گی کہ جدت ہے، انٹرنیٹ کا زمانہ ہے کتابوں کی جگہ برقی کتابوں نے لے لی ہے لیکن ساتھ ساتھ کتابوں کو بھی پڑھنا چاہیۓ تاکہ کتاب کلچر زندہ رہے۔