لا محدود امیدوں کا تانا بانا اور اسکا ہماری ذہنی صحت پر منفی اثر
رانی عندلیب
میں شیرکو نہیں کھاتی مگر اس کامطلب یہ نہیں کہ وہ مجھے نہیں کھائے گا۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ بہت زیادہ توقعات اور امیدیں رکھنا ہماری ذہنی صحت کو متاثر کر سکتا ہیں۔ اس لئے دوسروں سے کم توقعات وابستہ کرنا ایک پُرسکون زندگی گزارنے کے لئے ضروری عمل ہے۔
اکثر میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ مجھے جن لوگوں سے امید یا توقعات ہوتی ہیں۔ وہ اصل میں ایسے ہوتے ہی نہیں کیونکہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ یہ چایتا ہے کہ جیسا وہ ہے ویسے ہی دوسرا بھی ہو۔
جیسے ہم اپنے دوستوں، گھر والوں، رشتہ داروں سے جو توقعات رکھتے ہیں تو وہ بہت کم پوری ہوتی ہےاور بلا جواز امید رکھنا سب سے بری عادت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم جس طرح لوگوں کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں وہ بھی مخلص ہو۔ ہم اچھے ہو تو اس کے بد لے میں وہ بھی اچھا رسپانس دے۔
جب ہم کسی شخص سے یا چیز سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں تو ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ ہم جس پر بھروسہ کر رہے ہیں وہ بھی ہماری توقعات کے مطابق ہی ہونگے اور وہ بھی ہمارے لیے ایسا ہی چاہے گے بلکہ 80 فیصد لوگوں کا رویہ انتہائی مختلف ہی ہوتا ہے۔
زندگی میں دکھ ،درد اور تکلیف اس وقت آتی ہے جب ہماری حقیقت، ہماری توقعات سے میل نہیں کھاتی۔ اور یہ چیز ہی ہمیں انگزائٹی اور ڈپریشن کی جانب دھکیلتی ہے۔
اکثر اوقات انسان کی توقعات لا محدود ہوتی ہیں۔ وہ ایک خاص عمر تک زندگی میں کچھ سنگ میل حاصل کرنے کی توقع کرتے ہیں۔ جیسے کہ شادی شدہ ہوکر خاندان بنانے، کریئر کی سیڑھی چڑھنے یا مقررہ وقت کے اندر مخصوص طریقے سے اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے کچھ توقعات رکھتے ہیں ۔
خواتین دوسروں سے ہر بات قابل احترام اور قابل اعتماد ہونے کی توقع کرتی ہیں۔ دوستوں، رشتے داروں اور عزیزوں سے ان کی توقعات ہوتی ہیں کہ وہ ہمیشہ ان کے ہمدرد، خیرخواہ اور پوچھنے والے ہوںگے مگر ایسی کئی توقعات ہیں جو ہم سبھی کرتے ہیں اور جب زندگی ہماری توقعات کے مطابق نہیں گزرتی تو ہم تکلیف اور درد محسوس کرنے لگ جاتے ہیں اور مایوس ہوجاتے ہیں۔
اپنی مایوسی اور حالات کے لئےہم خود کو اور دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں اور جب گلہ کیا جاتا ہے تو ہمیں جواب ملتا ہے کہ ہم نے تو یہ نہیں کہا کہ ہمارے ساتھ اچھا کرو۔
تو کہتے ہیں کہ کیوں احسان کر رہی تھی کیا؟ بس جس نے بدلنا ہوتا ہے تو اس کو آپ روک نہیں سکتے اور نہ اسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ جب اسے ذہن پر سوار کرتے ہیں تو اس کا کچھ بگڑتا نہیں الٹا ہم ہی نقصان اٹھاتے ہیں۔
تو ان سب پریشانیوں اور تکلیفات سے بچنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ اپنی امیدوں کا دائرہ محدود رکھے کیونکہ جتنی غیر ضروری امیدیں کم پالے گے تو اتنا ہی ہمیں نقصان کم ہوگا۔
اس لیے ہمیں چاہیےکہ جب ہم توقعات نہیں رکھے گے تو بہت زیادہ سکون اور اطمینان محسوس کریںگے مایوس نہیں ہوںگے اور نہ دوسروں کے ساتھ نااتفاقی ہوگی۔
جب ہم دوسروں کی کچھ مدد کریں یا دوسروں کے کام آئیں تو شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم دوسروں کی مدد کر سکے ہے۔
اس میں لطف محسوس کریں گے اور اس کے بدلے دوسروں سے ہرگز صلے کی تمنا نہیں رکھیں گے کہ دوسرے ہماری اچھائی کا بدلہ ہمیں دیں گے۔ امید محض اللہ تعالیٰ کی ذات سے رکھنی چایئے کہ وہ خدائے برتر محض ہماری توقعات کو پورا کرسکتا ہے۔ تو ایسے ہماری زندگی اچھی گزرے گی۔