پاکستان میں ٹیلنٹ کو سراہا کیوں نہیں جاتا ؟
سعدیہ بی بی
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ دہائی میں ایک چیز جو دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگیوں ، معاشرتی رویوں ، حکومتی پالیسیوں اور سیاست پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ ہے ” سوشل میڈیا ” ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس رجحان میں آئندہ کئی برسوں تک کمی انے کا امکان نہیں ہے ۔
اج کل ہر کوئی سوشل میڈیا پر غیر ضروری مواد یعنی ( جس کا کوئی سر پاؤں نہ ہو ، جس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو ) سوشل میڈیا پر ڈال کر اپنے فالورز بڑھاتے ہیں اور پیسہ کماتے ہیں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ لوگ بھی ان کو پسند کرتے ہیں سراہتے ہیں ، اور جو لوگ دن رات محنت کر کے اپنے بل بوتے پر کامیاب ہوتے ہیں انہیں وہ مقام حاصل نہیں ، جو ایک عام بندے کو حاصل ہوتا ہے ۔
اج ہم دو ایسی شخصیات کے بارے میں بات کرے گے ، جنہوں نے اپنی کامیابی سے دنیا کو حیران کر دیا ۔
جن میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے رہائشی محمد شہیر نیازی، جنہوں نے دور حاضر کے عالم طبیعات کو نہ صرف حیران کیا بلکہ تحقیق کے لیے ایک نیا زاویہ فراہم بھی کیا ۔ کم سن مگر اعلی دماغ ، محمد شہیر نیازی ہیں دنیا کے بڑے اور نامی گرامی سائنسدانوں کو حیران کر دیا ۔ ان کی نئی دریافت کے پوری دنیا میں ابھی تک چرچے ہو رہے ہیں اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ قابل فخر پاکستانی طالب علم ملک کا نام مزید سر بلند کرے گا اور نوبل انعام پاکستان کے نام کر لے گا ۔
فزکس کے میدان میں محمد شہیر کی ریسرچ کو اہمیت دی جا رہی ہے ۔ سائنسی دنیا ان کی تحقیق پر سنجیدگی سے بحث کر رہی ہے ۔ محمد شہیر نیازی 16 برس کے تھے جب ان کا تحقیقی مضمون رائل سوسائٹی اوپن سائنس جنرل میں شائع ہوا ۔ انہوں نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے اس سے عندیہ ملتا ہے کہ مستقبل میں وہ ایسے ہی کسی بڑے سائنسدان کا روپ دھاریں گے ۔
انہوں نے الیکٹرانک ہنی کوم کے مظہر میں دو نئے عوامل کو متعارف کروایا ۔ ‘ سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کائنات میں ہر چیز کو توازن چاہیے ۔ سائنسی تجربے میں دو الیکٹروڈز ہوتے ہیں ، ایک سوئی اور دوسری اپنی پلیٹ ۔ اس پلیٹ پر تیل ڈال دیا جاتا ہے ۔ تیل میں سے بجلی نہیں گزر سکتی ۔ ایک الیکٹروڈ یعنی سوئی سے جب ہائی ولٹیج گزرتی ہے تو وہ ایک چھوٹے پیمانے پر ایسا ہی عمل ہوتا ہے جیسے اسمانی بجلی گرتی ہے ۔ جب برق پاروں کا دباؤ تیل پر زیادہ بڑھ جاتا ہے تو وہ انہیں راستہ دے دیتا ہے اور وہ دوسرے الیکٹروڈ سے جا ملتے ہیں ۔ تا ہم تیل نہیں چاہتا کہ اس کی شکل بگڑے اس لیے جب وہ توازن دوبارہ حاصل کرتا ہے جس کے نتیجے میں شہد کی مکھیوں کے چھتے کی شکل کے ڈھانچے بنتے ہیں ۔ یہ ہے محمد شیر نیازی جسے شاید ہی کوئی جانتا ہو ۔
اب بات کرتے ہیں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والی زارا نعیم ڈار کے بارے میں ۔ جنہوں نے دسمبر 2020 میں 179 ملکوں کے لاکھوں طلبہ میں سے’ اے سی سی اے ‘ کے ساتویں امتحان میں ‘ سب سے زیادہ نمبر ‘ حاصل کیے ۔
انہوں نے اس امتحان کی تیاری کے لیے دو سال لگائے ۔ اس میں وہ عرصہ بھی شامل ہے کہ جب ملک میں عالمی وبا کے نئے متاثرین تیزی سے سامنے آرہے تھے اور لاک ڈاؤن کے باعث تعلیمی سرگرمیاں رکاوٹ کا شکار تھی ۔ میڈیکل ، انجینیئرنگ یا دیگر مضامین کے بجائے زارا نے او لیول اور اے لیول سے ہی بزنس ، اکاؤنٹنگ اور اکنامکس پڑھی جس کے تسلسل میں پھر انہوں نے اے سی سی اے کرنے کا فیصلہ کیا ۔
کچھ لوگوں کے لیے یہ مضامین بورنگ ہو سکتے ہیں لیکن زارا کی دلچسپی اسی میں تھی ۔ معاشرے میں کئی لوگ زارہ سے یہی کہتے تھے پڑھنے کا شوق ہے تو ڈاکٹر بنو ! لیکن زارا کو اکاؤنٹنگ پسند تھی اور اس نے کر کے دکھایا ۔ اب زارا کو کئی کمپنیوں کی جانب سے نوکری کی پیشکش بھی ہوئی ہے ۔ یہ ہے وہ نامی گرامی شخصیات جنہوں نے کم عمری میں دنیا کو حیران کر دیا ۔
میرے خیال میں پاکستان میں تعلیمی قابلیت پر اتنا سراہا نہیں جاتا ، بین الاقوامی سطح پر ایسی کامیابی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ یہاں بات صرف زارا یا شہیر کی نہیں ہو رہی بلکہ کسی بھی تعلیمی کامیابی کی ہو رہی ہے ۔ میرے مطابق ایسا کرنے سے طلبہ کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے تاکہ وہ مزید بہتر کارکردگی دکھا سکے ۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہیں مختلف سماجی و معاشی مثال پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں