بلاگزعوام کی آواز

معاشرے میں عدم برداشت اور اختلاف رائے رکھنا آخر جرم کیوں؟

سندس بہروز۔

انسان سماجی جانور ہے۔ اس کو معاشرے میں ایک سماج کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔ اور اس سماج کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنی ہوتی ہے۔ بھائی چارہ ہر ایک معاشرے کا ایک اہم رکن ہوتا ہے۔ اس کے تحت ہر انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا ہوتا ہے۔

مگر شاید یہ سب باتیں کتابی ہوتی ہے کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ہم ایک دوسرے کے احساسات سے زیادہ ان کی محرومیوں کے بارے میں ذکر کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی شرح اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب زیادہ تر بدامنی کی وجہ دہشت گردی وغیرہ نہیں بلکہ عدم برداشت ہے ۔

اگر کسی کے پاس گھر نہیں یا اگر کسی کو نوکری نہیں مل رہی یا اگر کوئی بے اولاد ہے تو وہ پہلے ہی سے تکلیف سے گزر رہا ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اس پریشانی سے نکلنے کی تدبیریں سوچ رہا ہوتا ہے۔  ایسے شخص کے اندر پہلے سے ہی مسلسل ایک جنگ جاری ہوتی ہے۔ اور جب ہم ان سے بار بار پوچھتے ہیں کہ "کیا نوکری ملی؟”، "کیا بچوں کی کوئی امید ہے؟” تو ہم ان سے ہمدردی نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ایک طریقے سے ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہوتے ہیں۔

یا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم ان کو ان کی کمی یا محرومی کا احساس دلا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم واقعی جاننا چاہتے ہے کہ کیا ان کے حالات بہتر ہوئے یا نہیں تو ہمیں ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ دیکھنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ اور ویسے بھی بہت سے معاملات انسان کے ذاتی ہوتے ہیں۔ جیسے ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ کوئی ہمارے ذاتی معاملات میں بات کریں ویسے ہی ہمیں دوسروں کے ذاتی معاملات میں بھی بات نہیں کرنی چاہیے۔

اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو خود کچھ محرومیوں کا احساس نہیں ہوتا یا شاید وہ اس کو محرومی  نہیں سمجھتے اور اپنے حال میں خوش ہوتے ہیں مگر ارد گرد کے لوگ پوچھ پوچھ کر اس کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ محروم ہیں

میں نے بچوں کے معاملے میں یہ بہت دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ دوسروں کا منہ بند کرنے کے لیے اولاد کی نعمت چاہتے ہیں، نہ کے ان کو خود اولاد کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ہر ایک چیز کے لیے کچھ معیار بنائے ہوئے ہیں۔ اور کوئی ہمارے معیار کی کسوٹی پر پورا نہ اترے تو ہمیں یہ برداشت ہی نہیں، تو ہم پر فرض ہو جاتا ہے کہ ہم ان کا جینا دو بھر کر دیں۔

مثلا 25 سال کی عمر میں شادی ہو جانی چاہیے، اگر شادی کو ایک سال ہو گیا ہے تو بچے ضرور ہونے چاہیے، اگر بیٹی ہے تو بیٹا ہونا چاہیے، گریجویشن کے فورا بعد نوکری لگ جانی چاہیے، اگر نہیں ملی تو پوچھ پوچھ کر اس کو ڈپریشن کا مریض بنانا ہم نے ا پنا فرض سمجھ رکھا ہے۔ ہم بطور معاشرہ اتنے عدم برداشت کا شکار ہے کہ اگر کسی کی سوچ بھی ہم سے جدا ہے تو ہمیں وہ بھی گوارا نہیں۔

اللہ نے ہر انسان کو مختلف بنایا ہے۔ اس لیے ہم پر بھی یہ فرض ہے کہ ہم اس اختلاف کو نہ صرف تسلیم کریں بلکہ اس کا احترام بھی کریں۔ اور خود بھی جئے اور دوسروں کو بھی جینے دیں۔

سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button