پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی یا پاکستانی؟ آخر ہم ایک کب ہونگے۔
سندس بہروز
پاکستان کو آزاد ہوئے 76 سال ہو چکے ہیں مگر افسوس آج تک ہم ایک قوم نہیں بن پائے۔ ہم میں آج بھی یکجہتی نامی صفت موجود نہیں۔ ہم آج بھی نسل، رنگ اور قومیت کے فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ شاید اس لیے آج تک ہم پوری دنیا کا مقابلہ بھی نہیں کر سکے کیونکہ ہم ایک قوم نہیں بن پائے۔ یہ بات آج سے کئی برس پہلے باچا خان نے کہی تھی کہ ہم ایک قوم بن کر دنیا کا مقابلہ نہیں کرتے بلکہ ہم فرقوں میں تقسیم ہو کر اپنے ہی لوگوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آج اتنے سالوں بعد بھی ہمارا وہی حال ہے۔
پچھلے دنوں جب پاکستان کو بھارت سے میچ میں شکست ملی تو سابق کرکٹر اور موجودہ کوچ اعجاز احمد نے نجی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہمارے ٹیم میں زیادہ تر پٹھان ہوتے ہیں اگر سندھ کی بھی ٹیم بنتی ہے تو اس میں چھ سے آٹھ کھلاڑی پٹھان ہوتے ہیں ان کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ ایکسپوژر۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب دوران میچ ان پر پریشر پڑتا ہے تو وہ برداشت نہیں کر پاتے۔
اس پراعجاز احمد کو سوشل میڈیا پر کافی سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ پوری پٹھان قوم کی دل آزاری ہوئی ہے۔ بہت سے صحافیوں اور کھلاڑیوں نے تو ان کواپنے الفاظ واپس لینے کا کہا ہے۔ کھلاڑیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہمیں قومیت میں کیوں بانٹا جا رہا ہے اور ان کو معافی مانگنے کی صلاح دی۔ ہار اور جیت تو کسی بھی کھیل کا حصہ ہوتی ہے۔ اگر کسی ایک میچ میں کھلاڑی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے تو کوئی بات نہیں اس سے قومیت کو ٹارگٹ کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔نا صرف یہ بلکہ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شاہد آفریدی اور عمران خان جیسے اچھے کھلاڑی بھی پٹھان ہی ہے جو پاکستان ٹیم کو کئی میچ جتوا چکے ہیں۔
دکھ مجھے اس بات کا ہے کہ پٹھانوں کے ساتھ یہ اعتصابی رویہ صرف کھلاڑیوں کی حد تک محدود نہیں بلکہ ہماری فلموں اور ڈراموں میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب بھی کسی فلم اور ڈرامے میں دیکھو تو پٹھان کو ایک ایسا کردار دیا جاتا ہے جس نے پگڑی پہنی ہوگی،جس کا ایک پانچا اوپر اور دوسرا نیچے ہوگا،جس کو صحیح اردو نہیں آتی ہوگی، جو کہ اس ڈرامے میں یا تو مالی ہوگا یا چوکیدار یا ڈرائیور ورنہ وہ کوئی بدمعاش ہوگا جس کے ہاتھ سے پورے ڈرامے میں بندوق نہیں چھوٹے گی۔
ہماری فلموں اور ڈراموں میں پٹھانوں کو اپنی عورتوں کے ساتھ ظلم کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور یہ کہ وہ بہت سخت مزاج اور اکھڑ ہوتے ہیں۔ اور جیسا کہ اعجاز احمد صاحب نے کہا کہ نا ان کے پاس تعلیم ہوتی ہے نہ ایکسپوژر تو ایسا پٹھان صرف آپ کو ڈراموں میں ہی ملے گا، حقیقی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
حقیقت میں اگر پٹھانوں کو دیکھا جائے تو خیبر پختونخواہ کی شرح تعلیم روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے ہاتھوں سے بندوق چھوٹے ہوئے ایک زمانہ گزر گیا ہے اور بہت سالوں پہلے انہوں نے قلم اٹھا لیا تھا مگر آج بھی پٹھان کو جاہل ہی دکھایا جاتا ہے۔
شکوہ مجھے اس بات کا ہے کہ پٹھانوں کے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھا جاتا ہے۔ اور دکھ مجھے اس بات کا ہے کہ ہم واقعی آج تک پاکستانی نہیں بن پائے۔ ہم آج بھی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ اور جب تک ہم ایک قوم نہیں بن پائیں گے ترقی ہمارے لیے ایک خواب ہی رہے گی۔
سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔