میٹھا زہر – کیا آپ کے گھر میں بھی بچوں کو چینی سے بنی اشیا دی جاتی ہیں؟
سندس بہروز
کچھ دنوں پہلے میری ملاقات اپنے خاندان کی ایک خاتون سے ہوئی جو چند مہینے پہلے ماں بنی تھی۔ میں نے چونکہ ان کو بچی ہونے کے بعد پہلی دفعہ دیکھا تھا تو مبارک باد دینے ان کے پاس گئی۔ وہ کچھ اداس سی تھی۔ میں نے ان کو بہت دیر سے مبارکباد دی مگر انہوں نے اس طرح جوش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ میں تھوڑی حیران ہوئی کیونکہ وہ بہت خوش مزاج اور پرجوش خاتون ہیں۔ اس لیے میں نے ان سے اداسی کی وجہ پوچھی۔
جس پر انہوں نے مجھے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی کہ ان کی بچی ابھی سات ماہ کی تھی اور انہوں نے ایک مہینہ پہلے اسے ٹھوس غذائیں دینا شروع کی تھی اور بچی زیادہ شوق سے کچھ نہیں کھاتی اور کھانے میں ان کو بہت تنگ کرتی ہے۔ یہ بات بچی کی صحت سے واضح تھی۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ میں اس کو بازار میں دستیاب تیار شدہ بچوں کی خوراک کی بجائے زیادہ تر گھر کی چیزیں دیتی ہوں۔ میں اس کو چینی نہیں دیتی کیونکہ ایک سال سے کم عمر بچوں کو چینی بالکل نہیں دینی چاہیے۔ تو میرے گھر والے مجھے اس بات پر ٹوکتے ہیں۔ ابھی ابھی مجھے اسی بات پر ڈانٹ پڑی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کو دودھ میں چینی دو تو وہ دودھ پی لے گی اور دوسرے اشیاء میں بھی اگر میں چینی ملاؤں تو وہ شوق سے کھائیں گی۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ اس کو بازار میں تیار بچوں کے کیک اور بسکٹ دو تاکہ اس کا پیٹ بھریں اور جب میں ایسا نہیں کرتی تو وہ مجھے ڈانٹتے ہیں۔
اس خاتون کا خیال تھا کہ چینی بچوں کے لیے زہر ہے۔ یہ نا صرف ان کی ذہنی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ ان میں موٹاپے اور دل کی بیماریوں کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس کے علاوہ چینی بچوں کے دانتوں کو بھی متاثر کرتی ہے اور ان کی رویے میں تبدیلی کا باعث بھی بنتی ہے۔ چینی نہ صرف گردوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ بچوں میں سیکھنے کے عمل کو بھی آہستہ کر دیتی ہے جس سے زیادہ چینی کھانے والا بچہ دوسرے بچوں کی نسبت دیر سے چیزیں سیکھتا ہے اور زیادہ جلدی تھک جاتا ہے۔
یہ سب سننے کے بعد میں تو جیسے سکتے میں آ گئی۔ بڑوں پر چینی کے مضر اثرات کا تو مجھے علم تھا ہی مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ واقعی میں بچوں کے لیے زہر ہے۔
میں نے حیرت سے ان سے پوچھا کہ چینی توانائی کا خزانہ بھی ہے جو کہ بچوں کی نشوونما میں مدد دیتا ہے اور ان کو توانائی بخشتا ہے۔ اس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ قدرت نے اپنی غذاؤں میں خاص مقدار میں مٹھاس رکھی ہوتی ہے جو کہ ہمارے جسم کے لیے کافی ہوتی ہے اس لیے اگر ہم پھل اور سبزی کھائیں تو اس سے ہمارے جسم میں چینی کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے اور ہمیں باہر سے چینی کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تو کیوں نہ ہم اپنے بچوں کو خالص پھل اور سبزی کھلائیں بجائے ان کے کھانوں میں چینی ڈالنے کے۔
میں اس پر ان کے ساتھ متفق تھی مگر مسئلہ وہی تھا کہ ان دادیوں نانیوں کو کون سمجھائے، وہ تو یہی کہتے ہیں کہ” ہم نے تم لوگوں کو بھی تو چینی دی ہے کیا ہوا تم لوگوں کو، صحت مند ہی تو ہو”۔اب ان کو کون بتائیں کہ ان کے زمانے میں زیادہ تر گڑ کا استعمال ہوتا تھا اور ان کے دور میں اوسطاً 60 سے 70 سال کی عمر میں لوگوں کو ذیابطیس اور دل کے مسائل ہوتے تھے۔
مگر آج کل کے دور میں 30- 35 سال کے نوجوانوں کو ان مسائل کا سامنا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ بچے کھانا اس لیے نہیں کھاتے کیونکہ وہ میٹھا نہیں ہوتا۔اب ان کو یہ کون بتائیں کہ جو چیز بچوں نے کبھی کھائی ہی نہیں ان کو اس کی ضرورت اور عادت کیسے ہو سکتی ہے؟
احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ بچوں کو مارکیٹ میں بکنے والے بسکٹ اور کیک دینے کے بجائے گھر کی چیزیں دیں۔ کم از کم ایک سال تک ان کو چینی سے دور رکھیں اس کے بعد بھی ان کو کم سے کم چینی دیں۔
کیا آپ کے گھر میں بھی بچوں کو چینی کی اشیا دی جاتی ہیں؟
سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔