محمد بلال یاسر
کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں پرتشدد واقعات کے بعد وہاں زیر تعلیم پاکستانی طلباء کے والدین بھی تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے ان طلباء کی مدد کی جائے اور انکی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
ان طلباء میں سے ایک قبائلی ضلع باجوڑ کی طالبہ بھی ہے۔ ٹی این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ بشکیک شہر میں ایک یونیورسٹی میں میڈیکل کی سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جمعرات کے روز سے شروع ہونے والے پر تشدد واقعات کے بعد سے وہ اپنے کلاس فیلو سمیت ایک عمارت کے چند کمروں میں محصور ہو کر رہ گئیں ہیں۔ انکے پاس کھانے پینے کے اشیاء ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے پاکستانی سفارت خانے سے رابطے کی با رہا کوشش کی مگر وہ انکو ریسکیو کرنے کی بجائے کمروں سے نہ نکلنے کی ہدایات دے رہے ہیں ، ہم کب تک ان کمروں میں محصور رہیں گی۔
کیا غیر ملکی طالبات کے ساتھ واقعی ریپ کے واقعات پیش آئے؟
ایک سوال کے جواب میں طالبہ نے بتایا کہ میڈیا یہاں غیر ملکی طالبات کے ساتھ ریپ کے واقعات کی جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ہمارے والدین اور رشتہ داروں کی پریشانی مزید بڑھ چکی ہے۔ یہاں تقریباً سبھی غیر ملکی طلبا و طالبات ان واقعات میں متاثر ہوئے ہیں مگر ابتک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، یہ سراسر جھوٹ ہے۔ البتہ ہمارے ساتھیوں کو شدید زد و کوب کیا گیا ہے جس میں ہمارے چند ساتھی زخمی ہوئے ہیں اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس مشکل وقت میں پاکستانی قوم ہمارا حوصلہ بڑھانے اور ہمیں تحفظ کیلئے آواز اٹھانے کی بجائے جھوٹی خبریں اور پھر ریپ کی خبریں پھیلا کر ہمیں مزید مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی قوم سے التجا کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیجئے ، حکام کو جھنجھوڑیئے تاکہ وہ جلد سے جلد ہمیں اس مشکل سے نکالیں اور قوم اس طرح جھوٹ پھیلانے سے گریز کریں۔
پر تشدد واقعات کی شروعات کیسے ہوئیں ؟
مقامی میڈیا کے مطابق چند روز قبل کرغزستان اور مصر کے طلبہ کے درمیان لڑائی ہوئی تھی اور مقامی طلباء پر مصر کے طلباء نے جھگڑے کے دوران تشدد کیا جس کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد جمعے کی شب حالات کشیدہ ہوئے۔ مقامی لوگ اس جھگڑے کے ذمہ دار غیر ملکی طلباء کو سمجھتے ہیں۔ وہ غیر ملکی طلبہ کو ڈھونڈ رہے ہیں اور ان پر تشدد کرتے ہیں۔
محصور طالبات کے والدین کیا کہتے ہیں ؟
باجوڑ سے تعلق رکھنے والی طالبہ کے والد نے ٹی این این کو بتایا کہ حالیہ واقعات کے بعد وہ نہایت افسردہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کے حوالے سے نہایت فکر مند ہیں کیونکہ گزشتہ دو روز میں ان کا بیٹی کے ساتھ کئی بار رابطہ ہوا مگر ہر بار وہ نئی خطرناک صورتحال جان کر مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے سخت قبائلی روایات کے باوجود اپنی بیٹی کو باہر ملک پڑھانے کا عزم کیا ہے مگر اب ایسے حالات پیش آگئے کہ وہ اپنے فیصلے کے بارے میں سخت پریشان ہے کیونکہ گھر سے ہزاروں میل دور ان کی بیٹی سخت تکلیف اور مشکل میں ہے مگر ایک باپ ہونے کے باوجود وہ اپنے بیٹی کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
انہوں نے بتایا کہ وہاں کی پاکستانی سفارت خانے ہمارے بچوں کو اپنے کمروں اور ہاسٹلز میں محصور رہنے کی ہدایت کررہی ہے اور انہیں ریسکیو کرنے کی انہیں کوئی فکر نہیں۔ ہم مسلسل رابطے میں ہیں مگر ہمیں بھی صرف تسلیاں دی جا رہی ہے ، مگر یہ تسلیاں ہمارے لیے ناکافی ہے۔ لہذا میں وزیر اعظم پاکستان اور دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد طلبہ کو محفوظ مقامات پر منتقل کرے۔
پاکستانی سفارت خانہ نے ابتک کیا اقدامات کئے ہیں ؟
نجی نیوز چینل اے آر وائی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم نے کہا ہے کہ ان واقعات میں کچھ غیر ملکی طلبہ زخمی ہوئے ہیں اور 35 کے قریب افراد کو ہسپتال لایا گیا تاہم کرغز حکام نے ابھی تک ان کی قومیت سے متعلق کچھ نہیں بتایا۔
سفیر نے مزید کہا کہ بشکیک میں طلبہ کے ہاسٹل کے ارد گرد ہجوم کے تشدد کے تناظر میں، پاکستانی سفارت خانے نے بشکیک میں تمام پاکستانی طلبہ کو سختی سے مشورہ دیا ہے کہ جب تک کہ حالات معمول پر نہ آجائیں وہ گھروں کے اندر ہی رہیں۔ ہم اپنے طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں۔‘