"میری منگیتر سے انڈرسٹینڈنگ نہیں ہو پا رہی”
سندس بہروز
کچھ دن پہلے میری دوست کی منگنی ٹوٹی۔ وجہ وہی جو آج کل ہر تیسری چوتھی منگنی کے ٹوٹنے کی ہوتی ہے۔ "منگیتر سے لڑائی”، "میری منگیتر سے انڈرسٹینڈنگ نہیں ہو پا رہی”، "ہم دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں”۔
ارے بھئی کیا وہ مریخ سے آیا ہے جو اس کی دنیا الگ ہے۔ اور اگر وہ ایک الگ انسان ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کا مزاج بھی الگ ہوگا مگر ہم آج کل کے انسانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ ہم ہر کسی کو اپنی طرح بنانا چاہتے ہیں۔
خیر تو ہم بات کر رہے تھے منگیتر سے بات کرنے کے فیشن کی۔ یہ آج کل فیشن ہی ہے جو میری دوست نے اپنایا۔ اور میں نے اس کو روکا بھی کہ اسلام میں نامحرم سے اتنا کھل کر بات کرنا منع ہے مگر اس نے یہ بے تکا سا جواب دے کر مجھے خاموش کرا دیا کہ” وہ عنقریب میرے محرم بن جائیں گے۔”
بس پھر کیا تھا فون پر صبح اور شام میسجز ہوتے اور جب وقت ملتا تو کال پر لمبی لمبی باتیں ہوتی اور وہ یہ سب اپنے گھر والوں سے چپ کر کرتی۔ میں نے اس کو یہ بھی بتایا کہ جو بھی کام چپ کر ہوتا ہے وہ غلط ہوتا ہے مگر وہ باز نہ آئی۔ وہ اپنے منگیتر سے اجازت مانگ کر گھر سے باہر نکلتی اور عید پر اس کی مرضی کا جوڑا پہنتی۔ کون سی نوکری کہاں کرنی ہے اس سے پوچھا جاتا۔ یہاں تک کہ کس سے دوستی رکھنی ہے کس سے تھوڑنی ہے یہ بھی اس کے منگیتر ہی کی مرضی ہوتی۔ وہ منگیتر سے شوہر بن گیا تھا۔
آہستہ آہستہ اس کو احساس ہوا کہ اس کی زندگی سے اس کی مرضی ختم ہو گئی ہے۔ اس کو آزاد فضا بھی قید لگنے لگی اور اس نے تنگ آکر رشتہ توڑ دیا۔ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے رابطے میں رہا جاتا ہے مگر اکثر ایک دوسرے کو جانتے جانتے لوگ انجان ہو جاتے ہیں۔
اور یہاں بات اگر منگنی ٹوٹنے پر ختم نہیں ہوتی۔ کورٹ شپ کے بعد منگنی اگر قائم رہے تو شادی میں مسائل پیدا کرتی ہے۔۔ وہ اس لیے کہ کورٹ شپ کے عرصے میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو اپنا آئیڈیل چہرہ دکھاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی پرواہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے خاندانوں کا بھی انہیں احساس ہوتا ہے۔
مگر جب بات حقیقی زندگی کی آتی ہے جہاں شادی کے بعد لڑکی سارا دن کچن میں گزارتی ہے اور شوہر پورا دن آفس میں مصروف رہتا ہے اور اس کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ایک میسج بھی نہیں کرتا تو اس کو پہلے دھچکا لگتا ہے۔
دوسرا دھچکا تب لگتا ہے جب لڑکی کو لڑکے کے خاندان والوں سے گلے شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ شادی سے پہلے اس نے کھلے دل سے اس خاندان کو تسلیم کیا ہوتا ہے۔
تیسرا دھچکا تب لگتا ہے جب وہ اس کے محنت سے بنائے گئے کھانوں میں نقص نکالتا ہے اور اگر کھانے میں غلطی سے اس کے وہی بال آجائے جن کا وہ کبھی پرستار ہوا کرتا تھا تو دو منٹ میں پلیٹ 12 فٹ کی دوری پر نظر آتا ہے۔
اور پھر یہ دھچکے معمول بن جاتے ہیں کیونکہ شادی کے بعد نہ تو شوہر کو بیوی کی سالگرہ یاد رہتی ہے نہ اپنی اینیورسری۔ نہ وہ اس کے حسن کی تعریف کرتا ہے نہ وہ اس کی ہر بات برداشت کرتا ہے بلکہ اب تو غصہ اس کی ناک پر ہر وقت طرح رہتا ہے۔ کبھی جوتے پالش نہ کرنے پر غصہ تو کبھی صحیح سے اس کے کپڑے استری نہ کرنے پر اور دونوں بے سکون ہو جاتے ہیں۔
یہ سب نخرے کورٹ شپ میں اٹھائے جاتے ہیں اور وہیں سے عادتیں خراب ہو جاتی ہیں۔ کورٹ شپ ہمارے دین میں منع ہے مگر پھر بھی اگر لڑکا اور لڑکی شادی سے پہلے ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔ تو ان کو چاہیے کہ ایک دوسرے سے اپنی حقیقت اور سچائی کے ساتھ پیش آئے تو ان کی زندگی بھی آسان ہوگی اور ارد گرد رہنے والوں کی بھی۔
سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور ساتھ ہی سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔