چارسدہ سب جیل میں سپورٹس گالا کی تقریب
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ سب جیل میں پہلی مرتبہ محکمہ سپورٹس کے تعاؤن سے جیل انتظامیہ نے منگل کے روز مختلف کھیلوں کا انعقاد کیا جس میں حوالاتیوں اور جیل عملے کے درمیان رسہ کشی، بوری ریس، فوڈ کمپیٹیشن، روایتی رقص، لڈو اور میوزیکل چئرز کے مقابلے ہوئے۔
کھیلوں کے مقابلے ایک ہی میدان میں منعقد ہوئے مگر جیل پولیس اور حوالاتیوں نے انفرادی طور پر اپنے حریفوں سے مقابلے کئے۔
حوالاتیوں نے فلگ شگاف نعروں سے مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو خوب داد دیا۔ مخالف فریق کو چت کرنے کے لئے ہمت کی تاکید کر رہے تھے مگر کھیل میں قسمت ان کا ساتھ دے رہا تھا جو ہنر اور سوچ کے ساتھ کھیل کھیل رہے تھے۔
رسہ کشی کے مقابلوں کیلئے حوالاتیوں کی دو ٹیمیں بنائی گئی تھی جن میں ایک کی سرپرستی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جہانگیر خان اور دوسرے کی جیل چیف سجاول خان کر رہے تھے۔ سجاول خان کی ٹیم نے جہانگیر خان کے ٹیم کو شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کر لیا۔
تقریب میں دلچسپ مناظر اس وقت سامنے آئے جب خوراک کے مقابلے کیلئے پولیس اور حوالاتیوں کے ایک ایک کھلاڑی کے سامنے میز پر ایک چاکلیٹ، دو کیلے، تین چپس، دو عدد جوس اور دو کیکس رکھے گئے۔
تقریباً تین منٹ کے اندر اندر میز سے پوری کی پوری راشن غائب ہوگئی جس میں جیل عملے سے فاضل شاہ اور حوالاتیوں سے محمد عرفان نے ٹرافی اپنے نام کی۔
اسی طرح بوری ریس میں چھ حوالاتیوں نے حصہ لیا۔ ریس شروع ہونے سے پہلے گھنٹی بجتے ہی کھلاڑیوں نے دوڑ لگانا شروع کیا تو بیچ راستے میں دو حوالاتی اٹک کر گر گئے جبکہ بلال جان پوری کامیابی کے ساتھ اپنے مقررہ ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تاہم محمد وسیم نے کلچر گیم جیت کر انعام حاصل کر لیا۔
اسی طرح جیل عملے کے درمیان میوزیکل چیئر گیم میں جیل چیف سجاول خان اور روایتی رقص میں پولیس اہلکار طاہر خان کو پہلی پوزیشن سے نوازا گیا جبکہ لڈو میں حوالاتی بلال جان نے تینوں مخالف کھلاڑیوں کو شکست دے کر کپ حاصل کیا۔
جیل میں گزشتہ پانچ ماہ سے موجود حوالاتی محمد عرفان نے ٹی این این کو بتایا کہ جیل میں بغیر کسی سرگرمی کی ایک ایک لمحہ گزارنا ایک ایک سال کے برابر ہوتا ہے مگر آج کھیلوں میں حصہ لے کر بے حد خوشی ہوئی۔
عرفان کہتے ہیں "میں اور میرے دوست آج بے حد خوش ہیں ایسا لگ رہا ہے جیسے آج ہمارے لئے عید کا دن ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ سے سلاخوں کے پیچھے زندگی گزار رہا ہوں مگر آج احساس ہونے لگا کہ ہمیں صرف قیدی نہیں بلکہ انسان بھی تصور کئے جاتے ہیں”۔
کلچر مقابلہ جیتنے والے حوالاتی محمد وسیم کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بھاری بھر کم شخص کو اپنے کندھوں پر لے کر اُٹھایا اور دوڑ لگا دی۔ تندرست ہونے کے ناطے مقررہ وقت میں اپنا ہدف پورا کردیا۔
وسیم کا کہنا ہے ” ہمیں کھیلوں میں مزہ لینے اور خوشی محسوس کرنے کا علم ہی نہیں تھا، اگر میں جیل سے باہر جاکر محنت اور مشقت بھی نہ کروں، کھیلوں میں زندگی گزاروں تو بھی جرائم سے سو درجے بہتر ہوگا، جیل سے باہر جاکر ایسی ہی مثبت سرگرمیوں اور کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لوں گا”۔
چارسدہ جیل کا اندرونی احاطہ تقریباً 11 کنال پر محیط ہے جس میں اس وقت 320 کے قریب حوالاتی اور قیدی موجود ہیں مگر جیل میں صرف 220 افراد کی گنجائش موجود ہیں۔
چارسدہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سید محمد سلمان نے ٹی این این کو بتایا کہ قانون کے مطابق سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنا کسی جرم کے ارتکاب کے بعد واقع ہوتی ہے اور جیل میں قید کاٹنے کا مطلب قیدی کا اصلاح کرنا ہوتا ہے۔
سید سلمان کہتے ہیں "یہ بھی انسان ہیں اور آزاد انسانوں کی طرح قانون کے مطابق ان کے بھی حقوق اور جینے کا حق ہے۔ آج کی تقریب سے ہم یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں حوالاتیوں اور قیدیوں کی انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے”۔
جیل سپرنٹنڈنٹ نے مزید بتایا کہ انہوں ںے جیل کے اندر ان پڑھ حوالاتیوں کے لئے چھ ماہ کے تعلیم و تربیت کے کورس کا بھی اہتمام کیا ہے اور اس شارٹ کورس سے انہیں اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ لکھ اور پڑھ سکیں۔
سید محمد سلمان کہتے ہیں "میں نہیں چاہتا ہوں کہ جیل کے اندر دباؤ کا ماحول ہو بلکہ قانون کے اندر رہتے ہوئے جیل کو ماحول دوست بنایا جائے اور اسکے لئے ایسے تقریبات کا ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ قیدی مثبت انداز میں سوچ کر کھلے دماغ سے اپنے روشن مستقبل کا فیصلہ کریں”۔
محکمہ سپورٹس کے افسر مشل ملک نے پوزیشن ہولڈر کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کرنے کے بعد ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ محکمہ کھیل زیادہ تر آزاد عوام کیلئے تقریبات کا انعقاد کرتی ہے مگر جیل کے اندر قیدیوں کو بھی ذہنی اور جسمانی طور پر صحتمند رکھنا ضروری ہے۔
مشل نے بتایا "یہ خیبرپختونخوا حکومت کی ہدایات ہے کہ ہم ان تمام طبقات کو تفریحی سرگرمیوں میں شامل کریں جن کے بارے میں تصور ہی نہیں کیا جاتا ہے کہ ان طبقوں کو بھی کھیلوں میں حصہ لینے کی ضرورت ہے”۔
تقریب کا اختتام پشتو موسیقی کے نغموں اور قوالی پر ہوا جہاں پر قیدی اجتماعی طور پر روایتی رقص کرکے خوب لطف اندوز ہوئے۔