بیٹیاں اب بیرون ملک پڑھنے نہیں کمانے کے لئے جانے لگی
نشاء عارف
وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف معاشرے میں تبدیلی ائی بلکہ کافی حد تک لوگوں کے ذہنوں میں بھی تبدیلی ائی ہے۔ لوگ نہ صرف اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں بلکہ ان کو مختلف اداروں میں کام کرنے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔ سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں پرائیویٹ اداروں میں بھی کام کرتی نظر ارہی ہے۔ اس کی زندہ مثال ہمارے خاندان کی ایک ایسی لڑکی ہے جو بیرون ملک نوکری کرتی ہے۔
پچھلے دنوں میں اپنے رشتہ داروں کے گھر شادی کی تقریب میں گئی۔ وہاں سب لوگ نازیہ کی بہت زیادہ تعریفیں کر رہے تھے کہ نازیہ اتنی قابل اور ذہین ہے کہ اس کو بیرون ملک نوکری ملی ہے۔ یہ بات سن کر میں سوچ میں پڑ گئی کہ یہ ایک ایسا گھرانہ ہے جس میں خواتین کیا مرد بھی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے۔ اب وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ نہ اپنی بیٹی کو اعلی تعلیم کے زیور سے اراستہ کیا ہے بلکہ اس کو بیرون ملک نوکری کرنے کی اجازت بھی دی ہوئی ہے۔ اور فخر سے کہتے ہیں کہ ہماری بیٹی اس قابل ہے کہ وہ بیرون ملک ایک اچھی سی کمپنی میں نوکری کر رہی ہے۔
چند سال پہلے کی بات کرے تو وہ لڑکیاں جو پڑھی لکھی ہوتی یا پھر کسی ادارے میں نوکری کرتی ان کے اچھے رشتے انا ناممکن ہوتے تھے۔ ایسی لڑکیوں کو چالاک اور خود سر سمجھا جاتا تھا لیکن اب موجودہ دور میں ہر ماں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے گھر پڑھی لکھی بہو لے کر ائے۔ اور اگر پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ساتھ بہو جاب کرنے والی بھی ہو تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔
میں نے خود کئی خواتین کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ ایسی بہو لے کر ائیں جو جاب کرنے والی ہو کیونکہ اس کے دو فائدے ہیں ایک تو بیٹے کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داریاں اٹھائیں گی اور دوسری طرف ایسی لڑکیاں ہوشیار اور ذہین ہوتی ہے۔ وہ لڑائی جھگڑوں سے خود کو دور رکھتی ہے پہلے تو ان کو لڑنے جھگڑنے کا وقت نہیں ملتا اور اگر وہ گھر پر ہوں بھی تو ہر معاملے کو بخوبی سر انجام دیتی ہیں۔
موجودہ دور میں خواتین نہ صرف تعلیمی میدان میں اگے ہیں نا بلکہ ان کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی معاشی تنگی کے سبب حصول رزق کے لیے گھروں سے نکلتی ہے۔ لڑکیاں نہ صرف شادی سے پہلے بلکہ شادی کے بعد بھی نوکری جاری رکھتی ہے اور لوگ ایسی خواتین کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسے جیسے وقت کا پہیہ اگے بڑھ رہا ہے عورتوں کو ان کی ازادی اور حقوق مل رہے ہیں۔ کام کرنے والی خواتین اپنی اور اپنے بال بچوں کی ذمہ داریاں بخوبی نبھا سکتی ہے۔
پڑوس میں ایک لڑکی انگلینڈ گئی ہے اور وہاں نوکری کر کے اپنے والدین کو معاشی طور پر سپورٹ کرتی ہے۔ اب لوگوں میں شعور پیدا ہوا ہے یا شاید وقت کا تقاضا ہے یا ملک کے حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ لوگ اپنے بیٹوں اور خود کی کمائی سے گھر بار نہیں چلا سکتے۔ اپنے ملک میں ملازمت کی اجازت تو کیا اب تو بیرونی ملک نوکری کے لئے بھی بھیج دیتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ تو خواتین کو جلدی کسی بھی یورپین ممالک کا ویزہ لگ جاتا ہے اور والدین کو بھی کچھ عرصہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اور دوسری اہم وجہ ملک کے معاشی حالات اتنے خراب ہے کہ کسی بھی سفید پوش بندے کا گزرا مشکل ہے اور غریب لوگ تعیلم تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن پھر ملازمت کے لئے ان کے پاس نا رشوت ہوتی ہے اور نا ہی کوئی سفارش۔