نگران حکومت میں غیرقانونی بھرتیوں کا معاملہ: ڈی ای او زنانہ کو ہٹایا جائے
رفاقت اللہ رزڑوال
چارسدہ میں نگران حکومت کے دوران غیر قانونی طور پر بھرتی ہونے والے 74 ملازمین کی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے کمیٹی نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (زنانہ) کو اپنے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کر دی۔
دوسری جانب ڈی ای او ایجوکیشن زنانہ نے ان پر غیرقانونی بھرتیوں کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے نگران حکومت میں کسی بھی قسم کی بھرتیاں نہیں کی بلکہ سابق ڈی ای او زنانہ انکے خلاف میڈیا ٹرائل کرنے کی مذموم کوشش کررہی ہے جس پر وہ عدالت میں مقدمے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر زنانہ ثریا خٹک، اکاؤنٹنٹ مظہر خان اور کلرک سجاد علی کو ملازمین کی بھرتی میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر سفارش کی ہے کہ مذکورہ تینوں ملازمین کو فوری طور پر انکے عہدوں سے ہٹایا جائے تاکہ 74 ملازمین کی غیر قانونی بھرتیوں کی باریک بینی سے مکمل چھان بین کو یقینی بنایا جا سکے۔
دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ ڈائریکٹر ایجوکیش پختونخوا ثمینہ الطاف کے پاس جمع کرا دی۔ تحقیقاتی اسناد کے مطابق محکمہ تعلیم زنانہ میں صوبائی نگران حکومت کے دوران غیر قانونی طور پر 74 ملازمین کے بھرتی ہونے کا مبینہ سکینڈل سامنے آیا تھا۔ جس پر محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر ایجوکیشن نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے دو اپریل 2024 کو انکوائری کیلئے دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
کمیٹی نے تحقیقات کے بعد 29 اپریل کو اپنی رپورٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن پختونخوا ثمینہ الطاف کو جمع کرائی۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر زنانہ ثریا خٹک، آفس اکاؤنٹنٹ مظہر اور کلرک سجاد نے محکمانہ قواعد و ضوابط اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 74 ملازمین کو مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کے مرتکب قرار پائے ہیں۔
کمیٹی نے سکینڈل کی مزید تحقیقات، متعلقہ ایس ڈی اوز زنانہ کو تحقیقات میں شامل کرنے اور تمام متعلقہ ریکارڈ کو محفوظ بنانے کیلئے سفارش کی ہے کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر زنانہ ثریا خٹک، آفس اکاؤنٹنٹ مظہر اور کلرک سجاد کو فوری طور پر انکے عہدوں سے ہٹایا جائے تاکہ ریکارڈ میں کسی قسم کی گڑ بڑ کا راستہ روکا جائے۔ کمیٹی نے مزید سفارش کرتے ہوئے ہے تجویز دی ہے کہ مذکورہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر زنانہ کو فراہم کردہ سوالنامے کے مطابق ریکارڈ حاصل کیا جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے "ڈسٹرکٹ ایجوکیشن کمیشن زنانہ کے روئیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکے پاس غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے مکمل ریکارڈ موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان بھرتیوں کی وجہ سے قومی خزانے کو بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے”۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ملازمین کو پچھلے تاریخوں میں بھرتی کیا گیا ہے لیکن ریکارڈ سے ثابت ہے کہ ان کی تنخواہیں نگران حکومت کے دوران جون 2023 میں جاری ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ان ملازمین کے تعیناتی کے احکامات بھی مختلف تاریخوں میں جاری کئے گئے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان بھرتیوں میں قانونی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے متفقہ رائے دی ہے کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر زنانہ کے دور میں ہر قسم کے بھرتیوں کی چھان بین کیلئے ایک بڑی انکوائری کا آغاز کیا جائے کیونکہ انکے روئیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکے تمام دور میں ہونے والے بھرتیوں کا معاملہ بہت زیادہ مشکوک اور تحقیق طلب ہے۔
دوسری جانب ڈائریکٹر ایجوکیشن ثمینہ الطاف کا کہنا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کرا دی ہے جس کی سفارشات کے نتیجے میں تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرکے قانونی کاروائی کی جائے گی۔
تاہم ڈی ای او زنانہ ثریا خٹک نے ٹی این این کو بتایا کہ دو رُکنی کمیٹی کی ممبر صوبیہ تبسم ان کی جگہ چارسدہ میں اپوائنٹمنٹ چاہتی ہے اسلئے انہوں نے انکو ہٹانے کی سفارشات جمع کئے ہیں۔
ثریا خٹک نے خود پر انکوائری کمیٹی قائم کرنے کا الزام غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ تاحال ان پر انکوائری کمیٹی قائم نہیں کی گئی کیونکہ انہوں نے سیکرٹری ایجوکیشن کو لکھے گئے خط میں استدعا کی ہے کہ گریڈ 19 کی خاتون افسر میرے خلاف انکوائری کرنے کا مجاز نہیں۔
ثریا خٹک کہتی ہے ” صوبیہ تبسم گریڈ 19 کی خاتون افسر ہے نہ صرف وہ میرے خلاف کاروائی نہیں کرسکتی بلکہ وہ میرے پوسٹ پر خود کو لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، یہ میرا قانونی حق ہے کہ کمیٹی میں جن ممبرز پر ان کو تحفظات ہیں وہ ہٹائے جائیں”۔
انہوں نے بتایا "میرے سیکرٹری کو لکھے گئے خط کا جواب تاحال موصول نہیں ہوا ہے لہذا کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ میرے خلاف کاروائی یا مجھے اپنی پوسٹ سے ہٹانے کی سفارش کریں۔ مجھے پورا حق ہے کہ میڈیا ٹرائل کے ذریعے مجھے بدنام کرنے پر میں مذکورہ آفیسر اور چند میڈیا نمائندگان کے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کروں”۔