ون ویلنگ: موت کو دعوت دینا
نازیہ
ون ویلنگ کی جب بھی بات ہوتی ہے تو ایک دم سے ہم سب کاذہن نوجوانوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ یہ ون ویلر نوجوان کسی ماں کے لخت جگر کسی باپ کی آن اور بہن کا مان ہوتے ہیں۔ گھر واپس آنے کا کہہ یہ ون ویلر سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں اور یوں انتظار کرتی ہوئی انکھیں ان لاڈلوں کو دیکھنے کے لیے ترس جاتی ہے۔ ایسے ہی کئی گھرانوں سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں جن کے یہ پیارے ون ویلر بن کر اپنی نظر میں ہیرو تو بن گئے لیکن اپنے گھر والوں روتا چھوڑ گئے۔
ون ویلنگ سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد پولیس کے پاس موجود ہے اور اس کی تفصیل بھی کئی بار منظر عام پر آ چکی ہے مگر پھر بھی ون ویلنگ کو کنٹرول کرنے والے ادارے حرکت میں نہیں اتے ہیں۔
بعض نوجوان ون ویلنگ کو ایک کھیل تصور کرتے ہیں جو کہ میرے ناقص علم کے مطابق زندگی کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ ایک ایسا مذاق جس سے صرف ایک فرد کی جان نہیں جاتی بلکہ اس سے وابستہ تمام لوگ زندہ لاش بن جاتے ہیں۔ ایک ون ویلر ون ویلنگ کرتے ہوئے کسی فٹ پاتھ درخت یا گاڑی سے ٹکرایا اور بے سدھ ہو گیا اگر قسمت سے بچ گیا تو خود کو معذوری کے حوالے کر دیا اور اگر موت کے منہ میں چلا گیا تو اپنے خاندان کو تلخ یادوں کے حوالے کر گیا۔
مغربی ممالک میں ون ویلنگ اور موٹر سائیکل کے کرتب دکھانے کو باضابطہ کھیل کا درجہ دے دیا گیا ہے مگر اصولوں کے تحت۔ موٹر سائیکل اور سائیکل سوار انتہائی اونچائی، گہرائی، ڈھلوان، پھسلن اور خلاء میں جمپ لگاتے، قلابازیاں کھاتے اور ہاتھ چھوڑ کر طرح طرح کے خطرناک کرتب کرتے نظر تو آتے ہیں مگر یہ سب کچھ کرنے کے لئے ہر کھلاڑی ہیلمٹ اور کٹ پہن لیتا ہے۔ اور یہ سب ماہر کوچز سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد کھیل میں شریک ہوتے ہیں۔ ہر کھیل کے لئے خصوصی گراؤنڈز تیار کئے جاتے ہیں اور کھلاڑیوں کو چوٹ لگنے سے بچانے کی احتیاطی تدابیر اور وضع کردہ اصول وضوابط کے تحت کھیلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
کھیلوں کی یہی سرگرمیاں جب ترقی پذیر ممالک کے نوجوان دیکھتے ہیں تو ان کا خون بھی جوش مارتا ہے۔ مگر یہ نہیں سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس نہ تو روایتی وجدید کھیلوں کے لئے گراؤنڈز موجود ہے اور نہ ہی کوئی اور اعلی سہولت۔ ان کے اندر کا تھرل انہیں آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا اور ایسے میں آئے روز کے حادثات میں کئی گھروں کے چشم وچراغ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور یوں ان کی موت کے بعد ان کے والدین جیتے جی مرجاتے ہیں۔
جب ان نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ ون ویلنگ کیوں کرتے ہیں؟ تو جواب اتا ہے جی بس شوق ہے۔ دوستوں سے ہم نے سیکھا ہے۔ جب پوچھو کہ ڈر نہیں نہیں لگتا کیا؟ تو اوپر سے کہتے ہیں جو ڈر گیا وہ مرگیا۔ پولیس نہیں پکڑتی ہے کیا؟ پکڑ تو لیتی ہے مگر جرمانہ کرنے کے بعد چھوڑ دیتی ہے اور کبھی کبھارتو حوالات کی ہوا بھی کھانا پڑ جاتی ہے۔ جب پوچھا جاۓ کہ ہیلمٹ کیوں نہیں پہنتے ہو؟ جواب تو دیکھو زرا ہیلمٹ ضروری ہے مگر ون ویلنگ کرتے ہوئے ہیلمٹ تنگ کرتا ہے نا۔ جب ایسے جواب ملیگے تو خود سوچیۓ کہ ہمارے نوجوان کس سمت جارہے ہیں۔
ون ویلنگ کی روک تھام پر اگر بات کروں تو سب سے پہلے اس کا اپنا گھر، اساتذہ، سوسائٹی اور پھر ون ویلنگ کو روکنے والے سرکاری ادارے ہیں۔ گھر میں بچوں پر نگرانی اور بہتر تربیت سے ون ویلنگ کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔ گھر کے بہتر ماحول سے ون ویلنگ کو کافی حد تک کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول میں مثبت سوچ کو فروغ دیں۔ گھر کے بعد کسی کی بھی انسان کی دوسری تربیت گاہ اس کی درس گاہ ہوتی ہے جہاں اساتذہ ون ویلنگ کے مضر اثرات بارے نئی نسل کو آگاہ کر سکتے ہیں کہ یہ کھیل ہر گز نہیں یہ موت کا راستہ ہے۔ نوجوانی میں قدم رکھتے ہوئے بچوں کو گھر سے لے کر درس گاہ تک کے سفر میں وین ویلنگ کے نقصانات سے آگاہی کے لیے معلومات دینا والدین سے لے کر اساتذہ تک سب پر لازم ہے۔
ون ویلنگ کا ناسور ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے اگر سخت اقدامات نہ کیے گئے تو آئے روز نوجوان اس کا شکار ہونگے۔ گھر اور درس گاہ کے بعد ون ویلنگ کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے قانون کو حرکت میں لانا ضروری ہے۔ ون ویلنگ کا شکار ہو کر ہلاک ہونے کے بعد پولیس اور دیگر ادارے حرکت میں آ جانے تو کچھ کیا فائدہ۔ جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے پورے دل سے ون ویلرز کے خلاف صحیح طریقہ کار اختیار نہیں کرتے ہیں تب تک یہ ون ویلر نوجوان قابو میں نہیں ائینگے۔
حکومت کو چاہیے کہ ون ویلنگ کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سختی سے سمجھائے کہ جیسے ہی ون ویلر قانون کی گرفت میں آجائے تو اسے رعایت نہ دی جائے تاکہ اور نوجوان اس سے عبرت حاصل کریں۔