کوئلے کی کانوں میں مزدوروں کی ہلاکت کی وجہ؟ ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ جاری کر دی
رفاقت اللہ رزڑوال
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) خیبرپختونخوا نے درہ آدم خیل میں کوئلے کی کان میں تین مزدوروں کی ہلاکت پر ایک تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ کان میں کام کے دوران مزدوروں کے حفاظتی معیار اور پروٹوکول کو مسلسل نظر انداز کیا گیا تھا۔
ایچ آر سی پی نے منگل کو اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 20 اکتوبر 2023 کو مرنے والے تین مزدور کان کنی کے خطرات سے بچنے کے لیے حفاظتی سامان سے لیس نہیں تھے اور نہ مزدور حفاظت کے معیاری طریقوں سے آگاہ تھے جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔
حکام کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے ملحقہ علاقے درہ آدم خیل میں کوئلے کی کانوں میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس جمع ہوا جس کے بعد دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں مزدوروں کی ہلاکت واقع ہوئی۔
ایچ آر سی پی حکام کے مطابق انہوں نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کرنے کے دوران درہ آدم خیل کے دیگر کانوں کا بھی دورہ کیا جہاں پر انہوں نے مزدوروں کیلئے ابتدائی طبی امداد کی کمی، ہسپتالوں کا کافی دور فاصلہ بھی دیکھا جبکہ بعض واقعات کے رپورٹس کا اندراج بھی نہیں ہوتا۔ قریب ترین ہسپتال میں وسائل کی شدید کمی ہے، اور وہ کانوں سے اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ مریضوں کے علاج کے لیے پہنچنے سے پہلے ہی ان کی حالت اکثر خراب ہو جاتی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین اکبر خان نے ٹی این این کو بتایا کہ کوئلے کی کانوں میں سامنے آنے والے مسائل کے سب ذمہ دار ہیں جن میں حکومت سے لیکر مزدور تک شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے خیبر پختونخوا مائنز سیفٹی، انسپیکشن اینڈ ریگولیشن ایکٹ 2019 قانون بنایا ہے جس میں مزدوروں کے تحفظ، حادثے کی شکار مزدوروں کو معاوضہ دینا اور انہیں سہولیات دینے کی بات ہوئی ہے۔ مگر انسپکشن ٹیمز بھی جب کانوں کے دورے کرتی ہے تو وہ ‘بھتہ’ لینے کی غرض سے جاتی ہیں نہ کے مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے۔
اکبر نے بتایا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مزدور حفاظتی تدابیر اپنانے کے بغیر حد سے زیادہ کام کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ کام کرنے سے زیادہ معاوضہ حاصل کیا جائے جس سے بھی اکثر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
انہوں نے اپنی تجاویز میں بتایا کہ مائنز میں کام شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسپکشن ٹیم اس جگہ کا دورہ کرے اور سائنسی بنیادوں پر اس میں کام کرنا موزوں قرار دیں، جسکے بعد ضروری ہے کہ مزدوروں کو حفاظتی وسائل فراہم کیے جائیں اور اعلان کردہ قوانین پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق درہ آدم خیل میں بیشتر کانیں محکمہ معدنیات و قدرتی وسائل کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں مگر درجنوں ایسے ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تاہم پھر بھی وہاں پر مزدور کام کرتے ہیں۔
درہ آدم خیل میں کوئلے کی کانوں میں بیشتر مزدوروں کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع شانگلہ سے ہیں جہاں پر اکثر حادثات سے کئی گھرانے اُجڑ چکے ہیں۔
ضلع شانگلہ میں کوئلے کی مزدوروں کے حقوق اور آگاہی کی تنظیم کوئل مائنز ورکرز ویلفیئر ایسوسی ایشن (سموا) کے اعداد و شمار کے مطابق اس قسم کے حادثات سے 30 ہزار افراد ہلاک جبکہ 80 ہزار سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں۔