چترال کا ایسا انوکھا کھیل جو دنیا میں کہیں بھی نہیں کھیلا جاتا
گل حماد فاروقی
آئس گالف یا برفانی ہاکی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے۔ پچھلے مہینے بھی چترال میں ایک کھلاڑی اس وقت جان بحق ہوا جب وہ اس کھیل کے دوران بال کو تلاش کرنے چھت پر گیا تھا۔ بال تو مل گیا مگر اس کی جان چلی گئی۔ چترال کی وادی کیلاش کو بین الاقوامی سطح پر ان کی مخصوص ثقافت، لباس، رسم و رواج اور مختلف تہواروں کی وجہ سے شہرت حاصل ہے۔ یہاں مسلمان اور کیلاش قبیلے کے لوگوں نے مل کر صدیوں سے اپنی روایات کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح کچھ کھیل بھی ایسے ہیں جو شاید دنیا کے کسی کونے میں بھی نہیں کھیلے جاتے مگر صرف اس وادی میں کھیلے جاتے ہیں۔
وادی کیلاش کا آخری گاوں شیخانندہ ہے جہاں مسلمان رہتے ہیں اور ان کے کیلاش لوگوں کے ساتھ رشتے بھی ہیں۔
یہاں ہر سال موسم سرما میں جب شدید برف باری ہوتی ہے تو یہ لوگ برف سے ڈھکے ہوئے میدان میں ایک خاص قسم کا کھیل کھیلتے ہیں جسے مقامی زبان میں زیم پچھے، چترالی میں ہیم غال اور اردو میں برفانی ہاکی اور انگریزی میں آئس گالف کہتے ہیں۔ یہ فری سٹایل کھیل ہوتا ہے۔ محمد شریف اللہ بھی اس کھیل کا ایک مقامی کھلاڑی ہے ان کے مطابق جب یہاں برف زیادہ پڑتی ہے تو لوگ ایک خاص قسم لکڑی سے ہاکی نما سٹیک بناتے ہیں جس میں چاقو یا دیگر اوزار سے کرید کر لنگری کی طرح اس میں گول دایرے میں سراح نما جگہ بناتے ہیں تاکہ اس میں بال رکھا جائے اور کھلاڑی اس بال کو اس میں رکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے لے جاسکے۔ وہ بال بھی لکڑی سے بنا ہوتا ہے مگر اسے کالا رنگ اسلیے دیتے ہیں تاکہ سفید برف میں گم نہ ہوجائے۔
اس کھیل میں دو گاوں کے لوگ حصہ لیتے ہیں جس میں پچیس سے تیس کھلاڑی شامل ہوتے ہیں۔ یہ کھیل دو سے چار پانچ بلکہ بعض اوقات سات کلومیٹر تک بھی لمبے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ اس کے آغاز میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑی برفیلے میدان کے ایک سرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور باری باری اپنا گیند اس لاٹھی یعنی ہاکی والے سٹیک سے مارتے ہیں۔ اس دوران میدان کے ایک سرے سے دوسرے تک جگہ جگہ ہر ٹیم کے کھلاڑی تیار کھڑے ہوتے ہیں اور بال کا انتظار کرتے ہیں۔ جونہی کسی ٹیم کا بال آگے پہنچتا ہے اسی ٹیم کے دوسرے کھلاڑی اسے تلاش کرتے ہیں اور بال کو اسی لاٹھی میں کندہ شدہ جگہ میں رکھ کر برف سے ٹیلہ بناتے ہے جس کے اوپر گیند رکھ کر اسے لاٹھی سے مارتے ہے اور آگے بڑھاتے ہیں۔ تاہم اس کھیل کے دوران اس گیند کو ہاتھ لگانا یا پاوں لگانا منع ہے اگر کسی کھلاڑی نے غلطی سے بھی گیند کو ہاتھ یا پاوں لگایا تو اس کا ایک گول ضائع تصور ہوگا۔
فضل مولا بھی ایک طالب علم ہے مگر یہ کھیل نہایت شوق سے کھیلتا ہے۔ ان کھلاڑیوں نے اس کا طریقہ کار بتاتے ہویے کہا کہ یہ کھیل نہایت دلچسپ ہے اور یہ کھیل دنیا میں اور کہیں بھی نہیں کھیلا جاتا ہے۔ تقریبا ہر بیس میٹر پر کھلاڑی موجود ہوتے ہیں اور اپنے اپنے ٹیم کا گیند آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ بال میدان کے دوسرے سرے تک پہنچتا ہے تو وہاں ایک ریفری اسے دوبارہ مارنے کی ہدایت کرتا ہے اور میدان کے دوسرے سرے پر موجود کھلاڑی اس بال کو واپس اس طرف مارکر کر اگے بڑھاتا ہے جہاں سے یہ آیا تھا۔ جب یہ بال میدان کے اسی جگہ پہنچتا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا تو ایک گول تصور ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں اکثر اوقات جب گیند برف میں گم ہوجاتا تو کھلاڑی چالاکی سے چپکے سے دوسرا بال نکال کر اسے آگے کک مارکر بڑھاتے تاکہ مخالف ٹیم سے پہلے اپنا بال پہنچائے مگر آج کل جیوری کمیٹی باقاعدہ ان بالوں یعنی گیند پر نمبر لگاتے ہیں اور اس کا معاینہ بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کھیل نہایت دلچسپ اور جذباتی کھیل ہے جب کوی کھلاڑی گیند کو لاٹھی سے مارتا ہے تو ایک مخصوص جذباتی نعرہ بھی لگاتا ہے اور اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو خبردار کرتا ہے کہ وہ گیند پر نظر رکھے تاکہ گم نہ ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کھیل یہاں کے مسلمان اور کیلاش مل کر صدیوں سے کھیلتے ہیں اور آپس میں نہایت پیار و محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کھیل حطرناک بھی ہے پچھلے ماہ انیش گاوں میں برفانی کھیل کے دوران ایک کھلاڑی اس وقت جاں بحق ہوا جب گیند مکان کے چھت پر گر گیا اور وہ کھلاڑی وہاں چڑھ گیا۔ اس نے بال نیچے پھینکا مگر خود بھی اس کا پاوں پھسل کر نیچے گرگیا جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوا کیونکہ ایک تو یہاں صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں اور دوسرا راستہ بند ہونے کی وجہ سے اسے چترال ہسپتال بھی نہیں لے جاسکے۔ ان کھلاڑیوں نے مطالبہ کیا کہ اگرقدیمی ثقافی کھیل کو حکومتی سرپرستی حاصل ہو اور اسے ایک کیلنڈر کھیل کے طور پر منایے جس طرح شندور پولو تہوار وغیرہ ہے تو اسے مزید ترقی ملے گی اور اس کی وجہ سے یہ پسماندہ علاقہ بھی ترقی کرسکے گا۔
اس دلچسپ کھیل کو دیکھنے کیلیے آسٹریا سے ایک غیر ملکی سیاح بھی آیا تھا۔ انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ اس نے دنیا کسی بھِی ملک میں اس قسم کا دلچسپ کھیل نہیں دیکھا اور نہ پاکستان کے کسی حصے میں۔ یہ بس صرف ان پہاڑوں کے بیچ میں بسنے والے لوگ کیلاش اور شیخان مل کر کھیلتے ہیں اور ان لوگوں نے اسے صدیوں سے زندہ رکھا ہوا ہے۔
اس کھیل کا نہایت دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کے اختتام پر جیتنے والے ٹیم کے کپتان کو تین دن یا ایک دن کیلیے بادشاہ بناتے ہیں جسے مقامی زبان میں مہتر کہا جاتا ہے۔ اس کھیل کے اختتام پر ونر ٹیم کے کپتان کو جب مہتر بنانے کا اعلان ہوتا ہے تو اس کا باقاعدہ کابینہ ہوتا ہے اور اس کا سیکرٹری مہتر کی طرف سے جو حکم بھی جاری کرتا ہے اس بستی میں رہنے والے تمام لوگ اسے ماننے کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں علاقے کا ایس ایچ او، ڈی ایس پی، پٹواری یا دیگر سرکاری عملہ بھی شامل ہوتا ہے۔ مہتر پورے بستی کی ضیافت کرتا ہے اور ایک بیل ذبح کرتا ہے ساری رات ٹنگ ٹکور یعنی موسیقی کا محفل گرم ہوتا ہے اور لوگ جوق درجوق آکر اسے مبارک باد دیتے ہیں۔ مہتر اکثر اس دوران لوگوں سے راستے ، پل ، سڑکیں بھی رضاکارانہ طور پر بنواتا ہے اور لوگوں کے اپس کے تنازعات کو بھی حل کرتا ہے۔ تاہم اس بار رمضان کی وجہ سے مہتر بنانا ممکن نہیں اس کے احترام میں مہتر بنانے کا اعلان منسوح کیا گیا۔