پولنگ اسٹیشن تک نامکمل رسائی، خیبر پختونخوا کے ایک لاکھ سے زائد معذور افراد کو ووٹ کے حق سے محروم کرسکتی ہے
کامران علی شاہ
"ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں ،ہم ٹیکس دیتے ہیں ہمارا بھی حق ہے کہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیں۔ ہم پولنگ سٹیشن جاکر ووٹ پول کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری رسائی کے لئے کو ئی انتظام ہی نہیں جس الیکشن میں ہمارے رسائی کے لئے کوئی انتظام نہ ہوںو وہ الیکشن ہی نہیں ہونے چاہیئے”
یہ الفاظ مشتاق حسین کے ہیں جو بچپن میں پولیو کا شکار ہوئے اور اس وقت فرینڈز آف پیرا پلیجک نامی تنظیم کے سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ جبکہ پرایپلیجک سینٹر پشاور کے کئیر ٹیکر بھی ہیں۔
مشتاق حسین کہتے ہیں 60 سالہ زندگی میں معذوری کے ساتھ بہت سے اتار چڑھاو دیکھے۔ کئی الیکشن میرے آنکھوں کے سامنے ہوئے لیکن آج تک خصوصی افراد کے لئے کسی بھی الیکشن میں رسائی کا خاص انتظام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔
پولنگ سٹیشن میں وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لئے وہیل چئیر جبکہ نابنیا افراد کیلئے ریمپ اور دیگر سہولیات ناپید ہوتی ہیں کیونکہ انتخابات کے لئے قائم تمام پولنگ سٹیشن حکومتی عمارتوں میں ہوتے ہیں جہاں معذور افراد کی رسائی کےلئے پہلے سے ہی کوئی انتظام نہیں ہوتا۔
مشتاق حسین کہتے ہیں الیکشن کے دنوں میں سیاسی لوگ اور بعد میں حکمران معذور افرادکے لئے بلند و بانگ دعوئے تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہمیں تو گزشتہ 75سالوں سے ملک کی آبادی میں شمار نہیں کیا جارہا کسی ادارے کے پاس ہمارا ڈیٹا موجود نہیں۔ رسائی کے لئے انتظامات اورسہولیات دینا تو دور کی بات ہے۔
مشتاق حسین نے واضح کیا کہ اگر معذور افراد کی رسائی کے لئے کوئی انتظام نہ کیا گیا تو گزشتہ انتخابات کی طرح آئندہ بھی ووٹ پولنگ سے بائیکاٹ کرینگے جس میں ہمارے عزیز واقارب بھی شامل ہونگے اور اسی طرح سیاسی جماعتیں بڑی تعداد میں ووٹ سے محروم ہوجائیں گی۔
معذور افراد کی تعداد کے حوالے سے مشتاق حسین نے بتایا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سال 2017 کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں مختلف معذوریوں کے شکار افراد کی تعداد مجموعی آبادی کا 14.2 فیصد ہے جو 2 کروڑ 80 لاکھ بنتے ہیں۔ تعداد کے حوالے سے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مشتاق حسین نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں معذور افراد کی تعداد 60،70 ہزار کے قریب ہے جسکا ڈیٹا محکمہ سوشل ویلفئیر کے پاس بھی نہیں جبکہ گزشتہ 40 سال سے 12ہزار افراد صرف سپائنل کارڈ اینجری سے متاثر ہوئے ہیں۔
مشتاق حسین کا ماننا ہے کہ معذور افرادکی آواز کو ایوانو ں تک پہنچانے کے لئے انکے نمائندہ کی اسمبلی میں موجودگی ضروری ہے تاکہ صوبائی و قومی اسمبلی میں معذور افرادکے مسائل پر کھل کر بات ہوسکے۔
معذور افرادکا سب سے بڑا مسئلہ ڈیس ایبل شناختی کارڈ بنانا ہے جس کے لئے ہمیں ون ونڈو اپریشن فراہم کیا جائے تاکہ ہم دقت اُٹھانے سے بچ سکے۔ جعلی ڈیس ابیل شناختی کارڈ بننے کے عمل کو روکا جائے۔ ہمارے تعلیم یافتہ معذور افراد کے لئے نوکریاں نہیں ہیں۔ تعداد اور تعلیم کی بنیاد پر تمام اداروں میں جہاں معذور افراد کام کر سکتے ہے انہیں نوکریاں دی جائیں اور ہر پرائیوٹ یا سرکاری عمارت میں ہماری رسائی کے لئے سہولیات فراہم کی جائے۔ معذور افراد میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ہمارے مسائل کو سمجھ کرہمارے لئے سہولیات مہیا کی جائیں۔
سینٹر فار پیس اینڈڈیوپلمنٹ انیشیوٹیو (سی پی ڈی آئی ) کے زاہد عبداللہ خود بھی معذور ہے اور معذور افراد کے فلاح و بہود کےلئے کام کرتے ہیں۔ زاہدعبداللہ نے مشتاق حسین سے خصوصی نشستوں کے حوالے سے مکمل اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں میری رائے مختلف ہے۔ جمہوریت میں ہمیشہ پریشر گروپس ہوتے ہیں جو دباو ڈال کر اپنے مطالبات منوالیتے ہیں لہذا اگر کسی معذور فرد کا شوق ہے کہ وہ اسمبلی جائے توکسی پارٹی میں شمولیت اختیار کریں اسی سیاسی جماعت کے لئے محنت کریں اور ٹکٹ ملنے پر الیکشن لڑکراسمبلی میں پہنچ جائے۔ معذور افرادکی بات منوانے کے لئے مخصوص نشستیوں کی بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
زاہد عبداللہ کہتے ہیں معذور افراد کی رسائی کےحوالے سے سرکاری عمارتوں کا سروے شروع کیا تھا جو تاحال نامکمل ہے لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ پورے ملک میں معذور افراد کی سرکاری دفاتر یا دیگر مقامات تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔
جہاں بلڈنگ کو رسائی کے قابل بنانے کی کوشش بھی کی گئی ہے تو وہاں بھی وہ مقررہ معیار کے مطابق نہیں ہے۔ ریمپ کا معیار 1فٹ اونچا ہو تو 12فٹ اس کی لمبائی ہونی چاہئے لیکن اکثرریمپ اس معیار کے مطابق نہیں بنائے جاتے۔
اگر ریمپ اس معیار یعنی 1،12 کے مطابق ہو تو معذور افراد آسانی کے ساتھ رسائی حاصل کرسکتے ہیں لیکن اگر ریمپ مقررہ معیار کے برعکس ہو تو خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں معذور افراد کے ووٹ کے حوالے سے قانونی طور پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے معذور فرد اپنے ساتھ مدد گار کو بھی ساتھ لے جاسکتا ہے۔ پولنگ آفیسر بھی سہولت دیتا ہے۔
مشکلات رسائی کے حوالے سے اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولنگ سٹیشن دوسرے منزل پر بھی بنایا جاتا ہے ۔جہاں پہنچنا کسی بھی معذور فرد کے لئے آسان نہیں ہوتا۔ زاہد عبداللہ کہتے ہیں رسائی کے علاوہ معاشرتی روئے بھی مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ معذور افراد کو ووٹ ڈالنے کی کیا ضرورت اگر معذور فرد کا دل کر بھی رہا ہو کہ وہ جاکر ووٹ ڈالے تو معاشرے کا یہ رویہ انہیں ووٹ نہ ڈالنے پر مجبور کردیتا ہے۔ معذور افرد کے ووٹ کے لئے معاشرتی روئیے ٹھیک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا میں معذور افرادکا ڈیٹا حاصل کرنے کے لئے محکمہ بہبود آبادی کو معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت درخواست دی گئی جس کا تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے جبکہ ادارہ شماریات کے ویب سائٹ پر2021 تک نادرا سے موصول شدہ اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں معذور افراد کی کل تعداد 116425ہے، جس میں شناختی کارڈ کے حامل افراد کی تعداد 101625 اور بچوں کی تعداد2624 ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ "پاکستان ڈیس ایبل رپورٹ 2021″کے مطابق معذور افراد کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا 15فیصد ہے جس میں نابینا افراد 8فیصد ،گونگے بہرے افراد کی تعداد 7 فیصد ،دماغی مریضوں کی تعداد 8 فیصد جبکہ پاگل افراد کی تعداد 6فیصد ہے۔ اسی طرح 52 فیصد افراد دیگر معذوریوں میں مبتلا ہے۔اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 913667 جبکہ خیبر پختونخوا میں خصوصی افراد کی تعداد 227331 ہے۔
محکمہ شماریات اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹس کے مطابق خیبر پختونخوا میں بڑی تعداد میں معذور افراد کی موجودگی اور الیکشن میں انکے لئے خصوصی انتظامات کے حوالے سے جب الیکشن کمیشن کے خیبرپختونخوا کے چیف الیکشن کمشنر شمشاد خان سے پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ہر طبقہ فکر کے لوگوں کوانتخابات میں ووٹ ڈالنے کی طرف راغب کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی واضح ہدایات ہے کہ جتنے بھی پولنگ سٹیشن ہوں تمام میں معذور افراد کے لئےپولنگ بوتھ گراونڈ فلور پر بنائے جائیں اور ریمپ کی سہولیت مہیا کی جائے تاکہ اگر کوئی ویل چیئر استعمال کر رہا ہے تو انکو پولنگ بوتھ تک پہنچنے میں آسانی ہوں۔
ترجمان الیکشن خیبر پختونخوا سہیل احمد کے مطابق انہیں بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ کتنے پولنگ سٹیشنز میں ریمپ نہیں تھے اورکتنے میں معذور افراد کی رسائی کےلئے ریمپ بنائے گئے ہیں۔ سہیل احمد کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے عمومی ہدایات دی جاتی ہے کہ معذور افراد کے لئے پولنگ سٹیشن قابل رسائی بنائی جائے اور اسی طرح ہی ہوتا ہے ہمارے زیادہ تر پولنگ سٹیشنزمیں معذوروں کےلئے بوتھ گراونڈ فلور پر ہوتے ہیں اور قابل رسائی ہے تاہم اعداد و شمار موجود نہیں۔
پوسٹل بیلٹ پیپر کے حوالے سے سہیل احمد نے بتایا کہ پوسٹل بیلٹ پیپر کا ڈیٹا انکے پاس موجود نہیں کیونکہ یہ اعداد و شمار الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ اسلام آباد یا ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے پاس ہوتے ہیں ۔تاہم یہ ووٹ بھی دیگر ووٹوں میں شمار کیا جاتا ہے لہذا اسکا کوئی الگ ڈیٹابیس نہیں ہوتا ۔تمام ووٹروں کی آگاہی کے لئے الیکشن کمشن کا ایک ونگ کام کر رہا ہے جو مختلف جگہوں پر جا کر طلباء ،عام شہریوں اور محروم طبقات کو ووٹ کے حوالے سے شعور و آگاہی دیتے ہیں۔
جہاں تک بجٹ کا سوال ہے تو کسی حاص طبقے کےلئے بجٹ نہیں ہوتا ہمارے تمام سرگرمیوں کےلئے جو عام بجٹ ہوتا اس سے خرچ کیا جاتا ہے ۔جس میں آراوزاور ڈی آر اوز وغیرہ کی ٹریننگ ،شعور و آگاہی اور محروم طبقات کے آگاہی کے لئے پروگرامز ہوتے ہیں۔
سہیل احمد کہتے ہیں معذور افراد کےلئے پوسٹل بیلٹ پیپر کے حوالے سے آگاہی ہم سب کی ذمہ داری ہے کونکہ معذور افراد ہم میں سے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ انکی آگاہی کے ذریعے مدد کی جائے۔ معذور افراد کے لئے پوسٹل بیلٹ کی بھی سہولت دسیتاب ہے اور اس بات کی تشہیر بھی کی جائے تاکہ معذور افراد کو پتہ چل سکے اور اگر وہ گھر بیٹھے ووٹ ڈالنا چاہے تویہ سہولت بروقت حاصل کرسکیں۔
اضلاع اور صوبائی سطح پر ہماری ووٹر ایجوکیشن کمیٹیاں ہوتی ہے جس میں معذور افراد شامل ہوتے ہیں جن کی نہ صرف تجاویز کو اہمیت دی جاتی ہے بلکہ انکی رائے پر عمل بھی ہوتا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے نمائندوں کے انتخاب کے لئے جہاں سیاسی جماعتیں عام شہریوں ووٹ کے حصول کےلئے تگ ودو اور جلسے جلوس کرتی ہیں کیا معذور افراد کے ووٹ کا حصول بھی اتنے جتن کئے جاتے اس حوالے سے جبکہ صوبے بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اورسابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے بتایا کہ الیکشن میں معذور افراد کو گھر سے پولنگ سٹیشن تک اور پولنگ سٹیشن میں بوتھ تک پہنچنے میں رسائی کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے میری تجویز یہ ہے کہ جس طرح دوسرے ممالک میں پولنگ سٹیشن تک حکومت ووٹروں کو مفت ٹرانسپورٹ فراہم کرتی ہے اسی طرح پاکستان میں بھی مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔
دوسرا یہ کہ معذور افراد لائنوں میں کھڑے نہیں ہوسکتے لہذا پولنگ سٹیشن میں بھی معذور افراد کے لئے خاص انتظامات کئے جائیں جس کے تحت ہر پولنگ سٹیشن میں معذور افراد کیلئے ایک پولنگ بوتھ محتص کیا جائے تاکہ معذور افراد بھی صحیح طریقے اور آسانی کے ساتھ نمائندوں کے چناو میں حصہ ڈال سکے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان اور سابق ایم پی اے ثمر ہاروں بلورنے معذور افراد کے ووٹ پولنگ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی ہر کمزور کے ساتھ ہے اور الیکشن میں بھی ہم ہر اس فرد تک پہنچنے کی کوشش کرینگے۔ انتخاب کی صورت میں پہلے بھی اسمبلی کے اندر معذور افراد کےلئے آواز اُٹھائی ہے۔صوبائی اسمبلی میں معذور افراد کے کوٹہ سسٹم پر نوکریوں کے حوالے سے سوالات اُٹھائے تھے جس کے تفصیلی جوابات موصول ہوئے ہیں اور میرےتجاویز کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کرکے بل میں ترامیم بھی منظور کئے گئے جس کی وجہ سے انکے لئے ڈیس ایبل کوٹہ پر نوکریوں کےحصول میں آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں اور آئندہ بھی انکے حقوق کے لئے آواز اُٹھائیں گے۔ ثمر ہارون بلور نے کمزور طبقات کے لئے اسمبلی میں محصوص نشستوں کے حوالے واضح کیا کہ اس بارے میں تاحال پارٹی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے لہذا اس پر کچھ نہیں کہہ سکتی۔
مسلم لیگ (ن)خیبرپختونخوا خواتین ونگ کی صدراور سابق ایم پی اے صوبیہ شاہد نے معذورافراد کی ووٹ کا حصول اور پولنگ سٹیشن تک رسائی میں حائل رکاوٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہرشہری کو الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی طرف راغب کریں۔ خصوصی افراد کا خیال رکھنے کےلئے پاکستان مسلم لیگ (ن)خیبرپختونخوا خصوصی انتظام کریگی تاکہ معذور افراد آسانی کے ساتھ ووٹ پول کرسکے۔
صوبیہ شاہد نے بتایا کہ جہاں جہاں ہو سکتا ہے کہ معذور افراد کو پارٹی ٹرانسپورٹ مہیا کریں وہاں ٹرانسپورٹ بھی دینگے اور پولنگ بوتھ تک رسائی میں بھی مدد فراہم کی جائے لیکن الیکشن کمیشن کو بھی چاہئے کہ معذورافراد کےلئے خصوصی انتظامات کریں اور تعداد کے لحاظ مختلف پولنگ سٹیشنز میں انکے لئے الگ بوتھ بنائے۔ ساتھ ہی اگرحکومت خصوصی افراد کیلئے ٹرانسپورٹ کا بھی انتظام کریں تو یہ انکے لئے مزید آسانی کا باعث بنے گا۔