جب چھوٹے تھے تو بڑوں کی شادیاں ہوتی تھیں جب ہم بڑے ہو گئے تو چھوٹوں کے رشتے آنے لگے
حدیبیہ افتخار
19 وی صدی میں خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا کسی بڑے امتحان سے کم نہ تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ حالات بہتر ہونے لگے اور بزرگوں کو بھی سمجھ آگئی کہ خواتین کے لئے تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ لیکن وہ بھی صرف پرائمری تک پھر میٹرک تک رواج بڑھا۔ 20 وی صدی میں پھر خواتین کے لئے تعلیم کے دروازے کھلنا شروع ہوگئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور آیا تو اس کے ساتھ شرح خواندگی میں بھی بڑی حد تک اضافہ ہوا حالانکہ خطے کے دیگر ممالک اب بھی شرح خواندگی میں پاکستان سے بہت آگے ہیں۔
خواتین کو پہلے تعلیم حاصل کرنے میں جتنی مشکلات کا سامنا رہا 20 وی صدی کے جوان اس سے بے خبر ہے۔ انیسویں صدی کے نوجوانوں نے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے اور یہاں تک کہ پسند کی شادی کے لئے جتنے پاپڑ بیلے شاید کہ کسی نے اتنا سہا ہو۔
آجکل کے بچے اور آنے والی نسل تو اس قدر خوش قسمت ہے ان کے لئے تعلیم اور زندگی کے دیگر معاملات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اپنی مرضی سے زندگی جی رہے ہیں ماں باپ جو کل تک ہم پر بے شمار پابندیاں لگاتے۔ چاہے وہ پڑھائی کے معاملے میں ہو یا گھر سے باہر نکلنے کے آج اپنے باقی بچوں کے لئے کافی لبرل ہوگئے ہیں۔
کچھ دن پہلے میری ایک فرینڈ سے اس بارے میں بات ہو رہی تھی کہ ہم نے اپنے بچپن اور اب اپنی جوانی میں کیا کچھ نہیں سہا۔ سکول, کالج, یونیورسٹی جانے کی اجازت کے لئے ہم نے والدین پر جرگے کئے تب جاکر اجازت ملی تھی۔ اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے مجھے اس پر بلاگ لکھنے کا خیال آیا۔
امید ہے میں اپنی بات کو آپ تک پہچانے میں کامیاب رہونگی۔ آئیے اپنے موضوع پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
20 وی صدی میں خواتین کی تعلیم کی شرح میں کچھ حد تک اضافہ ہوا۔ اس دور میں لڑکیوں کی پڑھائی کو ایک طرح سے اہمیت دی جانے لگی۔ ہمارے والدین چاہتے ہیں کہ ہم پڑھیں لکھیں, لیکن پڑھائی کے ساتھ ساتھ کافی رکاوٹوں کا سامنا بھی رہا ہے۔
پہلے لوگوں کو مالی مشکلات کا بھی سامنا تھا اور لوگ لڑکیوں کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا فضول سمجھتے تھے۔ بڑے کہتے تھے کہ لڑکیاں تو پرائے گھر کی ہے پڑھ لکھ کر کیا کرے گی۔ اس نے تو گھر سنبھالنا ہے ہڑھائی کی اجازت مل بھی جاتی تو پرائمری تک اور پھر ان کی شادی کردی جاتی تھی۔
لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ہمیں تو پہلے کالج کی اجازت نہیں تھی پھر کالج یونیورسٹی داخلے کے لئے گھر والوں کی منت سماجت کرنی پڑی۔ اجازت ملی تو پھر ہاسٹل کا مسئلہ درپیش تھا لیکن گھر والوں نے ہاسٹل کی اجازت نہیں دی۔ پہلے تو یہ بھی تھا کہ ہمیں یہی کہہ دیا جاتا کہ جو مضامین قریبی یونیورسٹی یا کالج میں ہے وہی پڑھیں گے چاہے آپ کو ان مضامین میں دلچسپی ہوں یا نہ ہوں۔ شہر سے باہر یونیورسٹی جانا گناہ جبکہ، ہاسٹل میں رہنا ہمارے لئے گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔
معاشرے میں ہمیں یہ طعنے ملتے تھے کہ لڑکی ہو کر تم ہاسٹل میں رہوگی۔ بھلا کوئی گیا ہے ہمارے خاندان میں تم سے پہلے ہاسٹل۔۔ شکر کرو کہ پڑھنے کی اجازت ملی ہے اسی پہ خوش رہو۔ جبکہ آجکل تو لڑکیاں شہر سے باہر کیا بلکہ سکالرشپ پر ملک سے باہر بھی آسانی سے پڑھنے کے لئے چلی جاتی ہیں۔
یہ ہم تھے جو سب کا ٹارگٹ رہے، لیکن ہم نے ہمت کرکے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے کا آغاز کیا اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے راہیں ہموار کرنے کا ذریعہ بھی بنے۔
میں اگر اپنی بات کروں تو اپنی فیملی میں وہ پہلی لڑکی ہوں جس نے یونیورسٹی سے ریگولر تعلیم حاصل کی۔ اور اس کے لئے خاندان میں مجھے اور امی کو کافی مشکلوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جبکہ اب میری باقی کزنز کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ آسانی سے آگے پڑھ سکتی ہیں اور گھر سے ان کو مکمل سپورٹ ہے۔
میری فرینڈ جو کہ ایک سرکاری ملازمہ ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ ہمیشہ سے ڈاکٹر بننا چاہتی تھی یہ اس کا خواب تھا اور کہیں نہ کہیں یقین بھی کہ وہ ڈاکٹر ضرور بنے گی۔ لیکن اب جب وہ مکمل طور پر اپنا پیشہ بدل چکی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ اس کے وقت اس کے گھر میں ایسا کوئی نہیں تھا جو کہ اس کو صحیح گائیڈ کرتا کہ کیسے انھوں نے اپنا یہ خواب پورا کرنا ہے۔
لیکن اب جب ہم بڑے ہوگئے تو ہمیں احساس ہے کہ اپنے بہن بھائیوں کے خوابوں کو ادھورا نہیں چھوڑنے دینگیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو اپنے بہن بھائیوں کے لئے اپنے والدین کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہن کو یونیورسٹی جانے کی اجازت اگر گھر والے نہیں دیتے تو ہم ان کی یہ مشکل آسان کردیتے ہیں اور والدین کو راضی کرلیتے ہیں۔ اور ان کو یونیورسٹی میں تعلیم دلاتے ہیں۔ اب انہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ تم سے پہلے کوئی یونیورسٹی گیا ہے کیا, ان کے لئے راستہ ہم نے ہموار کیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں شادی کے معاملے میں ہمارے ساتھ کیا ہوا؟
جب ہم چھوٹے تھے یعنی جب میٹرک یا فرسٹ ایئر میں پڑھتے تھے تو ہماری بہنوں جن کی عمریں اس وقت 26, سے 27 سال ہوتی ان کے رشتے آتے تھے۔ لیکن جب ہم بڑے ہوئے اور شادی کی عمر کو پہنچے تو اچانک چھوٹی لڑکیوں کی شادیوں کا ٹرینڈ شروع ہوا اور ہمارے بجائے ہم سے چھوٹی بہنوں کے رشتے آنے لگے۔
بعد میں ہمیں یہ طعنے بھی سننے کو ملے کہ پڑھائی لکھائی کے شوق میں شادی کی عمر گزار بیٹھے۔ ہم جائیں تو کہاں جائیں۔
ہم نے کیا کچھ نہیں دیکھا، کرونا، تعلیم کا کرونا کی بدولت درہم برہم ہوتا نظام، حکومتی مسائل، ملک کے بگڑتے حالات، لوگوں کے ہماری زندگی میں آگے بڑھنے پر ان کے بدلتے تیور اور پسند کی شادیوں کا روگ۔ دل میں ایسے بہت سے ارمان ہم دفن کر بیٹھے لیکن اپنے آنے والی نسلوں کے لئے کافی کچھ کیا اور آگے بھی کرینگی۔ انشاللہ ۔
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائٹر اور بلاگر ہیں۔