میری دوست نے ایک تصویر بھیجی جسے دیکھ کے میں حیران رہ گئی
سعیدہ
ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں جعلی تصاویر یا جعلی خبریں بہت تیزی سے اور بہت دور تک پھیلتی ہے۔ ان خبروں کو ایسے پھیلایا جاتا ہے کہ لوگ بہت جلدی اس کو سچ جان کر اس پر یقین کرلیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ضلع باجوڑ میں جب ایک سیاسی جلسے میں دھماکہ اوا تو زیادہ تر لوگوں نے فلسطین اور غزا کے شہدا کی تصویریں شیئر کیں کہ یہ باجوڑ کے شہدا کی ہے۔
فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب سمیت سبھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ تصویریں دیکھنے کو ملیں اور تو اور ان تصویروں کو اڈیٹ کرکے سمائیلی چہرے بھی بنائے کہ دیکھو یہ شہدا ہے کس طرح ہنس رہے ہیں۔
خدا کے بندوں تھوڑا تو خدا کا خوف کرو۔ اسی دھماکے کے اگلے روز میری ایک دوست نے ایک تصویر بھیجی جسے میں دیکھ کے حیران رہ گئی کی ایک مرہ ہوا شخص آخر کیسے اتنا کھل کے ہنس سکتا ہے۔ میں نے بالکل بھی یقین نہیں کیا۔ لیکن پھر باقی دوستوں نے بھی کہا کے یہ باجوڑ کے ایک شہید کی تصویر ہے جو بم دھماکے میں شہید ہوا ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس نے فیک تصویر پر یقین کیا خیر اس وقت تو تھوڑا بہت ذہن کو یقین آیا کے شاید ان کی بات سچ ہو لیکن پھر بھی شک سا تھا کہ یہ باجوڑ کے شہید کی تصویر نہیں لگتی۔ کچھ وقت بعد خیال آیا کہ کیوں نا اپنا شک دور کروں۔
جب سرچ کرنے لگی تو گوگل کی بدولت مجھے علم ہوگیا کہ یہ تصویر باجوڑ کے شہید کی نہیں ہے لیکن لوگوں کی بڑی تعداد بغیر تحقیق کے فیس بک اور ٹوئٹر پر اس کو شئیر کر رہی تھی۔
پتہ چلا کہ یہ تصویر دو سال پہلے لی گئی تھی جو فلسطین کے شہید کی تھی۔ اب اس کو بھی کسی اور نے بھیجی ہوگی اس لئے وہ کہہ رہی تھی کے یہ اصلی ہے۔
آخر کب تک لوگ ایسے فیک تصاویر شیئر کرتے رہیں گے؟
یہ تو صرف ایک مثال ہے ایسی بہت ساری فیک تصاویر اور خبریں سوشل میڈیا پر ہر روز شئیر ہوتے ہیں۔ جنہیں پڑھے لکھے لوگ تصدیق کیے بغیر اپنی سوشل میڈیا پر شئیر کرتے ہیں۔
پھر میرے ریسرچ کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ زیادہ تر ٹوئٹر پر شئیر کی جانے والی خبروں میں بڑی تعداد جعلی خبروں کی ہے۔ ان میں ایسے اکاؤنٹس بھی ہے جو مشہور شخصیات کے نام پر بنائے جاتے ہیں اور یوں ایک جھوٹی خبر بڑی اسانی سے پھیل جاتی ہے۔
کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے کہ میری ایک دوست نے ایک دوسری دوست سے کہا کہ گھروں میں آنے والی پولیو ٹیم سے اپنی بچّی کو پولیو کے قطرے مت پلوانا کیونکہ فیس بک پر انہوں نے ایک خبر دیکھی تھی کہ پولیو مہم میں قطرے پینے کے باعث سو سے زائد بچّے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ پولیو کے قطرے ایکسپائرڈ تھے اورحکومت اس بات کو میڈیا سے چھپا رہی ہے۔ پھر میں نے خبر دینے والی دوست سے پوچھا کہ کیا آپ نے اس خبر کی تصدیق کی تھی کہ آیا یہ سچ ہے یا جھوٹ؟
تو ان کا جواب تھا نہیں۔ اور سوشل میڈیا پر ایک جعلی خبر کو بلاتصدیق آگے پہنچایا اور اس بات کا بالکل بھی احساس نہیں ہوا کہ لوگوں کو اور پولیو ٹیم کو اس خبر سے کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کم پڑھے لکھے لوگوں کو تو چھوڑوں تعلیم یافتہ لوگ بھی بلا تصدیق و تحقیق سے خبر دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔
ذرا سوچیۓ!
کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی جانب سے پھیلائی ہوئی خبر لوگ صرف اس لیے مان لیتے ہیں کہ انہیں آپ پر بھروسہ ہوتا ہے؟ اب اپ خود سوچئے ذرا کہ جب آپ کی دی ہوئی خبر غلط یا جھوٹی ثابت ہوگی تو لوگ آپ پر بھروسہ کرنا چھوڑ دینگے اور پھر اپ کی سچی خبر بھی لوگوں کو جھوٹی لگے گی۔ اس لیے درخواست ہے کہ احتیاط کیجیے کیوںکہ جھوٹی خبریں ہوا کی طرح پرواز کرتی ہے۔
متاثرہ شخص یا اداره اپنی وضاحتیں جب پیش کرتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ شک و شبہات نے اپنے گڑے گھاڑ لئے ہوتے ہیں۔ خدا کے بندوں تھوڑا تو خدا کا خوف کرو۔ آپ کی ایک چھوٹی سی فیک تصویر یا فیک خبر کی وجہ سے لوگوں کی زندگی میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خدارہ کوشش کرے سچ بھولے اور لوگوں تک بھی سچ پہنچائے۔