پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مسائل
نازیہ
کیا اپ جانتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں چھٹا اور مسلم ممالک میں دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان کی آبادی اس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے کہ 2050 تک دنیا میں بڑھنے والی کل آبادی میں پچاس فیصد حصہ ڈالیں گی۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جہاں پوری دنیا میں آبادی میں اضافے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی تو پاکستان میں یہی شرح 1.9 فیصد رہی۔
پاکستان کی آبادی جس تیز رفتار سے بڑھ رہی ہے کیا یہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، اور کیا مستقبل میں پاکستان کے ساتھ اتنی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل بھی دستیاب ہوں گے یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟
بے قابو بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے قدرتی اور معدنی وسائل بہت تیزی سے کم ہو رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال پانی کی کمی کی ہے۔ اسی طرح تیل اور گیس جیسے دیگر وسائل میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو توانائی کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ ملک کا انفراسٹرکچر بھی آبادی کے حجم کے لحاظ سے ناکافی ہے اور اتنی بڑی آبادی کے لیے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور سڑکوں کی مناسب تعداد مہیا کرنا ہماری حکومت کے لیے بے حد مشکل کام ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی سے زرعی اراضی میں خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ زراعت کا کام چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ زرعی اراضی کا غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال تیزی سے پھیلتا جارہا ہے جو کہ ملک کو ایک اور بڑے بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔
پاکستان میں خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ جیسے کہ گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خورونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہے کیونکہ زرعی اراضی کو رئیل اسٹیٹ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور زیر کاشت زمینوں کو رہائشی اسکیموں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کا ایک مستقل زرعی بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ یورپی ممالک نے اپنی آبادی کو قابو میں رکھا ہے جس کی وجہ سے وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل ہم سے کہیں درجہ بہتر ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی مسائل کو بڑھاتی ہے۔ آبادی میں تیز رفتار اضافے کی شرح چونکہ ترقی پذیر ملکوں میں زیادہ رہی ہے۔ اس حوالے سے دو ماہرین کےانٹرویوں دیکھے جس میں وہ بتا رہے تھے کہ ہمارے بڑھتے ہوئے مسائل کی بڑی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔ اگر آج اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ایک سنگین صورت اختیار کرجائے گا۔
اج کل کہیں بھی جاؤ ہر کوئی مہنگائی کا رونا رو رہا ہے لیکن کوئی بھی یہ نہیں سوچتا ہے کہ اس سے کس طرح نکلا جائے۔ اگر بچوں کی اچھی پرورش نہیں کرسکتے ہیں تو اتنے بچے پیدا کیوں کرتے ہیں؟ اج دیکھیں تو سگنلز پر بچے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ گھروں میں، ورکشاپس پر بچوں کا کام کرنا تو عام سی بات ہو گئی ہے۔ اور تو اور کوڑا چننا ہو، جوتے پالش کرنے ہو، پھول بیچنے ہو یہاں تک کے گاڑیوں کی سروس کرتے ہوئے بھی بچے نظر آتے ہیں۔ اگر خاندان امیر ہے، کاروبار اچھا چل رہا ہے تو سمجھ میں آتا ہے کہ بچے زیادہ بھی ہے کوئی بات نہیں اچھی پرورش کر سکتے ہیں، ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ غریب ماں باپ جو اپنی ہی زندگی خون پسینہ بہا کر گزار رہے ہوتے ہیں یا وہ والدین جو بھیک مانگ مانگ کر اور لوگوں کے گھروں میں کام کرکے گزارا کرتے ہیں انکے اتنے زیادہ بچے کیوں؟ یہ سب کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
اخر میں بس اتنا کہونگی کہ اگر مستقبل کی فکر ہے تو ہمیں اور حکومت کو اس سے متعلق سوچنا ہو گا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جس رفتار سے پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے اس رفتار سے وسائل میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔
ملک میں رہنے والے ہر شخص کو اپنے خاندان کے حقوق کا اندازہ ہونا چاہیے اور ان حقوق کی ادائیگی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہونا چاہئیے۔ پاکستان میں علمائے کرام کا لوگوں کی ذہن سازی میں بہت بڑا کردار ہے۔ اسی لئے علمائے کرام کو بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
ماہرین کے مطابق اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مختلف پالیسیوں اور اگاہی پروگرامز کے ذریعے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے عملدرآمد شروع کیا جائے کیونکہ جس تیزی سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور جس طرح سے پاکستان کے کمزور معاشی حالات ہیں اس کی وجہ سے پاکستان کے لیے اپنی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنا آنے والے وقتوں میں مزید مشکل ہو جائے گا۔
l