والدین کہتے ہیں فحاش فلمیں نہ دیکھو باقی جو بھی ہو دیکھ لو
سعدیہ بی بی
آج کل کے والدین نے اپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائلز، ٹیبلٹس دیے ہوتے ہیں اور کھلم کھلا ازادی دے رکھی ہوتی ہے کہ وہ جو بھی چاہیں کر سکتے ہیں۔ آج کل کے بچے بچیاں رات کے دو یا تین بجے تک بیٹھ کر فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ والدین بجائے منع کرنے کے اور شے دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ والدین خود بھی راتوں کو جاگ کر فلمیں دیکھتے ہیں اور ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کو پرواہ نہیں ہوتی کہ بچے کے ذہن پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ الٹا اج کل بولا جا رہا ہے کہ ” بیٹا فحاش فلمیں ، ویڈیوز نہ دیکھو باقی کوئی بھی دیکھ لو”۔
اب یہاں والدین غلطی پر ہیں کیونکہ فحاش فلموں کے علاوہ بھی جو فلمیں بن رہی ہیں وہ دیکھنے کے قابل نہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہوا ہے کہ ایک 10 سال کا بچہ جو چوتھی کلاس کا طالب علم ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ رات دیر تک فلم دیکھتا رہا، اب والدین کو معلوم ہے کہ ان کے بیٹے کے پیپرز ہیں لیکن پھر بھی بیٹے کو اپنی گود میں بٹھا کر فلم دکھا رہے ہیں۔ اس کا ڈرائنگ کا پیپر تھا اب اس نے اپنے پیپر میں ایسی ڈرائنگ بنائی جس کا کسی کو گمان ہی نہیں تھا۔ جب یہ ڈرائنگ اس کی ٹیچر نے دیکھی تو حیران رہ گئی۔ انہوں نے یہ ڈرائنگ سکول کی پرنسپل کو دکھائی تو وہ یقین ہی نہیں کر پا رہی تھی کہ ایک چھوٹا سا بچہ ایسی ڈرائنگ کرے گا۔
بچے کو بلا کر بہت پوچھا لیکن وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ پھر اس کے والدین کو گھر سے بلایا گیا۔ پرنسپل نے بچے کے والدین کو اس کی بنائی ہوئی ڈرائنگ دکھائی اور وجہ پوچھی کہ اس نے ایسی ڈرائنگ کیوں بنائی۔ والدین نے سوچنے کے بعد بتایا کہ اس نے رات کو ہمارے ساتھ ایک فلم دیکھی تھی جس کے اخر میں ایک مونسٹر نے ایک لڑکے کے پورے خاندان کو مار کر ان کی لاشوں کو اوپر سیخوں سے لٹکا دیا تھا۔ اب یہ سین ایک دس سال کا بچہ دیکھ رہا ہے جو اس کے دیکھنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کے بعد پرنسپل نے لفظی تیر والدین پر برسائے کہ اپ ایک چھوٹے سے بچے کو ایسی فلم دکھا رہے تھے جس سے اس کا ذہن متاثر ہوا ہے تبھی اس نے ایسی ڈرائنگ بنائی ہے۔ اپ کو تو چاہیے کہ اپنے بچوں کو ایسی فلموں سے روکیں بلکہ ایسا ویسا کچھ دیکھنے ہی نہ دیں کہ بچے کا ذہن متاثر ہو۔ ان فلموں میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے بچہ وہ سیکھ رہا ہے اگر کل کو اپ کا یہی بیٹا بڑا ہو کر کسی کو قتل کر دے اور قاتل بن جائے یا ایسے ہی اپ سب کو مار کر لٹکا دے تب اپ کیا کر سکیں گے۔
اب یہاں بات تربیت کی ہے کہ جیسے والدین بچوں کی تربیت کرتے ہیں وہ ویسے ہی کریں گے۔ اب یہاں والدین غلط تھے جنہوں نے اپنے بچے کو ایسی فلم دیکھنے کی اجازت دی۔ اگر انہوں نے اپنے بچے کو فلم دیکھنے سے منع کیا ہوتا تو وہ ایسی ڈرائنگ کبھی نہ کرتا اور نہ اس کو ذہن نشین ہوتا یہ منظر کیونکہ اج کل کے والدین نے بچوں کی تربیت ہی ایسی کی ہے کہ وہ جو خواہش کرتے ہیں چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز پوری کر دی جاتی ہے۔ اگر شروع سے ایک بچے کو موبائل ہاتھ میں نہ دیتے اور ایسی چیزیں دیکھنے سے منع کرتے تو ایسے واقعات کبھی رونما نہ ہو۔ اج کل جو فلمیں بن رہی ہیں وہ ایک 18 یا 20 سال لڑکے یا لڑکی کے لیے بھی ٹھیک نہیں کیونکہ وہ جو دیکھتے ہیں بالکل ویسے ہی کر کے دکھاتے ہیں۔ جیسا کہ ڈراونی اوازیں نکالتے ہیں چھوٹوں پر یا بہن پر تشدد شروع کرتے ہیں۔
میرے خیال میں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو فلمیں دیکھنے سے منع کریں۔ فلمیں دیکھنے کے نقصانات سے اگاہ کریں۔ اپنے بچوں کی حرکات پر نظر رکھیں۔اگر ضرورت سے زیادہ موبائل کا استعمال کرتے ہیں تو ان کی سرچ ہسٹری چیک کریں اور صرف ان کی جائز خواہشات کو پورا کریں کیونکہ یہی بچے مستقبل کے معمار ہیں۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگر ملتی رہتی ہیں۔