لائف سٹائلکالم

فتوؤں کی زد سے نکل کر مذہبی سفارتکاری کی راہ پر گامزن ایک نوجوان عالم دین کی کہانی

 

عابد جان ترناو

"وہ میری زندگی کے سب سے مشکل دن تھے، میرے اپنے لوگوں نے مجھ پہ زمین تنگ کردی تھی۔ میرے دن کا چین اور راتوں کا سکون درہم برہم ہوگیا تھا۔ میرے اپنے لوگ جن کے ساتھ کھیل کر میں بڑا ہوا تھا اب مجھ سے کترانے لگے تھے اور یہ سب کچھ ایک شخص کی ذاتی انا کی تسکین واسطے ہورہا تھا”

یہ الفاظ ہیں مذہبی ہم آہنگی کے معروف پرچارک ، ٹرینر ، سماجی مصلح اور روشن فکر رکھنے والے علامہ تحمید جان ازہری کے۔

تحمید جان کا تعلق ضلع چارسدہ کے ایک پسماندہ گاؤں نیموڑئے بابا سے ہے۔ یہاں پر عام عوام کی اکثریت مذہبی ذہن والی ہے اس لئے دیگر والدین کی طرح ان کے والدین کی خواہش بھی اپنے بیٹے کو مذہبی تعلیم دلوانے کی تھی۔
"سکول کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت سے بہرہ ور فرمایا۔ پھر میٹرک کے بعد دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ مدرسہ میں داخلہ لیا۔ میرا ذہن شروع ہی سے چیزوں کو تنقیدی اور منطقی نکتہ نظر سے دیکھنا تھا۔ میں ایک روایتی ملا نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس کے برعکس اپنے علم کو انسانیت کی فلاح کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ کہتے ہیں جو مختلف سوچتے ہیں ان کے لئے امتحانات بھی مختلف ہوتے ہیں لیکن ان امتحانات کی کوکھ سے جو کامیابیاں ملتی ہیں ، وہ ناقابل یقین ہوتی ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ نے میرے لئے کچھ اور لکھا تھا اسی لئے مجھ پر امتحانات بھی زیادہ آئے۔ ”

تحمید جان کے مطابق ان کے کچھ اپنے لوگ کسی ذاتی بات پر ان سے ناراض ہوگئے لیکن اس ذاتی رنجش کو انہوں نے مذہبی رنگ دے دیا اور ان کے خلاف رسالے لکھے گئے اور گمراہی کے فتوے بانٹے گئے۔ مقامی مذہبی کمیونٹی میں اعلانات کئے گئے کہ تحمید جان گمراہ ہوگیا ہے ، اس کے ساتھ تعلقات اور لین دین منقطع کئے جائیں۔ پوری کمیونٹی نے بغیر جانچ پڑتال کئے ، حقائق کا جائزہ لئے بغیر تحمید جان کا سوشل بائیکاٹ کیا۔ اپنے مساجد اور مدارس میں ان کی آمد پر پابندی لگائی گئی اور ان کو اپنے ہی معاشرے میں ایلئین بنادیا گیا۔ تحمید جان کے ساتھیوں کو بھی شک اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ جس طرح آج ایک سیاسی جماعت کے افراد پریس کانفرنس کرکے خود کو پاک صاف کرا لیتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح تحمید جان کے دوستوں کو بھی کرنا پڑا۔ جو اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ، ان پر بھی زمین تنگ کردی جاتی جو دوسری طرف جاکر صفائی دے جاتے ، انہیں کچھ نہ کہا جاتا۔

"وہ میری زندگی کے سخت ترین دن تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی میں کہاں جاؤں، نہ کوئی دوست تھا ، نہ غمخوار۔ جو بھلے وقتوں میں ساتھ تھے ، وہ بھی اب کترانے لگے تھے۔ بہرحال وقت چاہے جیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور ہر طویل رات کی ایک صبح ضرور ہوتی ہے ، مجھ پر بھی یہ طویل رات گزر ہی گئی اور اس کے بعد جو صبح طلوع ہوئی ، وہ بے حد چمکیلی تھی۔ اس صبح میں غموں کی آہیں نہیں تھی بلکہ خوشیوں کے قہقہے تھے۔ ہمارے دیوبند ثانی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا سمیع الحق شہید میری پشت پر کھڑے ہوگئے تھے۔ میرے لئے اس سے معتبر گواہی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی تھی اور علاقے کے عوام کے لئے بھی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ سمیع الحق شہید تحمید جان کے ساتھ ہیں تو ان کے شکوک وشبہات بھاپ بن کر اڑ گئے۔ رفتہ رفتہ برف پگھلنے لگی ۔ ”

تحمید جان کے لئے رفتہ رفتہ حالات بدلتے گئے۔ انہوں نے اپنی دینی تعلیم جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک جیسے بہترین ادارے سے مکمل کی اور اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 2016 میں جامعہ ازہر مصر سے بین المسالک ہم آہنگی کے موضوع پر ڈپلومہ حاصل کیا۔ اسی دوران انہوں نے انٹرنیشنل ریسرچ کونسل فار ریلیجئس افیئرز نامی تحقیقاتی ادارے کے ساتھ بطور ڈائریکٹر کام شروع کیا۔ اس ادارے نے تحمید جان کی چھپی صلاحیتوں کو آشکار کرنے اور ان کو مہمیز کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا۔

"آئی آر سی آر اے کے ساتھ اسلام آباد رہتے ہوئے مجھے کئی ملکی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر خدمات انجام دینے کے مواقعے ملے۔ یہاں پر میری فکر بلند پرواز ہوگئی، فکر میں وسعت پیدا ہوگئی۔ مختلف کمیونیٹیز بارے آگاہی حاصل ہوئی ان کے مسائل کا ادراک ہوا۔ مذہبی سفارتکاری کی اہمیت کا اندازہ ہوا ۔ مدرسہ کے علماء و طلباء کے مسائل و مشکلات کو کئی عالمی و ملکی فورمز پر زیر بحث لانے اور ان کے دیرپا حل پیش کرنے کا موقع ملا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔”
تحمید جان یو این ڈی پی اور جینیوا کال جیسی عالمی تنظیموں سمیت کئی دیگر ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ کام کر رہے ہیں۔

اس کے علاؤہ انہوں نے امن ، جمہوریت ، سماجی استحکام ،ہیومینیٹرین لا ، مدرسہ ڈسکورسز ، پولیو اور انگلش لینگویج کے حوالے سے بلا مبالغہ سینکڑوں کمیونٹی سیشنز کا انعقاد کیا ہے۔ 2019 میں آسٹریا سے انٹر کلچرل اور انٹر ریلیجئس ڈائیلاگ پر ایک سالہ فیلوشپ بھی کرچکے ہیں۔
انہیں مختلف ٹی وی پروگرامز اور مختلف کانفرنسوں اور سیمینارز میں بطور مہمان سپیکر مدعو کیا جاتا ہے اور بہت دلچسپی سے سنا جاتا ہے۔
مذہبی سفارتکاری ، سماجی استحکام اور جمہوری رویوں کے فروغ کے لئے انہوں نے کئی ممالک کا سفر کیا ہے جن میں چین ، ملائیشیا ،افغانستان ، قطر ، سعودی عرب ، ایران ، مصر ، آسٹریا اور برما سر فہرست ہیں۔

"میں نے اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی خدمت ، معاشرے کی بہبود ، سماجی ترقی ، مذہبی و مسلکی رواداری ، امن اور ترقی کا فروغ بنالیا ہے۔ ہمیں مل کر اس ملک کو امن اور محبت کا گہوارہ بنانا ہے ، اس ملک کو اقوام عالم میں نمایاں مقام دلانا ہے ، نفرتوں کو ختم کرنا ہے ، انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے ، انسانیت کا درس عام کرنا ہے اور محبتوں کے سفیر بننا ہے۔ "

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button