چارسدہ پولیس 40 دن سے لاپتہ بیٹے کی رہائی کیلئے 6لاکھ روپے مانگ رہی ہے؛ خاتون کا الزام
رفاقت اللہ رزڑوال
"میں روزانہ اپنی گلی میں پاگلوں کی طرح گھر سے نکل کر روتی ہوں کہ سنی بیٹا کہاں ہو، کہاں ہو مگر سنی کہاں پر ہوتا ہے؟ گھر آکر زور زور سے چیختی ہوں کہ بیٹا ایک آواز تو دو تاکہ دل کو سکون ملیں مگر سنی کوئی آواز نہیں دے رہا” یہ فریاد 40 دن سے لاپتہ ضلع چارسدہ کے پرانے بازار سنی کی ماں ظہرہ کی ہے۔
ظہرہ کہتی ہے "چالیس دن قبل تھانہ پڑانگ پولیس کے ایس ایچ عبدالعلی میرے بیٹے سنی کو بھائی ابوبکر کے سامنے غائب کرچکا ہے۔ میرا لاپتہ بیٹا مجھے نامعلوم مقام سے کال کے ذریعے بتاتا ہے کہ میری رہائی کے لئے پڑانگ پولیس کو 6 لاکھ روپے دیدیں، میں 6 لاکھ روپے کہاں سے لاؤں؟”
ظہرہ بی بی اپنی غربت کی وجہ سے ہمسائیوں کے گھر میں خدمت کر رہی ہے جس کے انہیں ماہانہ پندرہ سو روپے تنخواہ ملتی ہے۔ انہوں نے اتوار کے دن چارسدہ پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایس ایچ او عبدالعلی نے ان کے اٹھارہ سالہ بیٹے سنی کو بندوق کے جرم میں پکڑ کر لاپتہ کیا ہے مگر پولیس اس کے بارے میں نہ تو معلومات دیتی ہیں اور نہ عدالت میں پیش کرتے ہیں۔
ظہرہ بی بی کہتی ہے "ہم بہت تکلیف میں ہیں، ان کی بیوی غم سے نڈھال ہے، مجھے اپنے بیٹے کی جدائی نے پاگل بنا دیا ہے، غربت ہے مگر ہمیں آٹا چاہئے اور نہ گھی چاہئے بلکہ حکومت اور پولیس سے ہم اپنا بیٹا چاہتے ہیں”۔
ضلع چارسدہ میں پولیس کی جانب سے شہریوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ اس سے سات سال قبل تھانہ سرڈھیری پولیس پر گل آباد میں ایک گھر سے پانچ بھائیوں کو لاپتہ کرنے کا الزام ہے جس کی مذکورہ تھانے میں مقدمہ بھی درج ہے۔
اسی طرح ایک ماہ قبل تھانہ سٹی کی پولیس پرعلاقہ رجڑ کی رہائشی نواز ولد انور علی کے لاپتہ ہونے کا الزام ہے مگر تمام واقعات میں تاحال مذکورہ افراد بازیاب نہیں ہوئے۔
لاپتہ فرد سنی کے بھائی ابوبکر نے ٹی این این کو اپنے بھائی کی جبری طور پر لاپتہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا "میں اور میرا بھائی دونوں الگ موٹرسائکلوں سے گھر آ رہے تھے، میرے بھائی کے ساتھ بندوق تھا، پولیس نے ناکہ بندی کے دوران پرانے بازار چارسدہ میں میرے بھائی سنی کو روک کر پکڑ لیا اور ایس ایچ او عبدالعلی اسے اپنے ساتھ لے گیا”۔
ابوبکر کہتے ہیں کہ جب وہ اپنے چچا سمیت اپنے بھائی کے حوالے سے تھانے گئے تو تھانے میں موجود اہلکاروں نے ان کی گرفتاری سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ یہاں پر نہیں ہے۔
ابوبکر نے بتایا "میں نے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت میں پولیس کے خلاف اپنے بھائی کے اُٹھانے کی گواہی دی ہے مگر اب مجھے بھی نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیوں کی کالز آرہی ہیں، مجھے ڈرا رہے ہیں اگر مجھے غائب کیا یا مارا گیا تو ایس ایچ او عبدالعلی ذمہ دار ہوگا”۔
لاپتہ فرد سنی کی ماں کا مطالبہ ہے کہ اگر ان کے بیٹے نے کسی بھی قسم کا جرم کیا ہے تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے عدالت اسے کوئی بھی سزا دیں ہمیں اعتراض نہیں ہوگا مگر میرے بیٹے کو ہم سے ملائیں۔
پاکستانی قوانین کے مطابق جبری طور پر شہریوں کو لاپتہ کرنے کو غیرقانونی اور غیر انسانی فعل تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے گزشتہ ہفتے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو حکم دیا تھا کہ حکومت تحریری طور پر عدالت کو بتائیں کہ اسکے بعد کوئی بھی شہری جبری طور پر لاپتہ نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ کے وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن شبیر حسین گگیانی نے بتایا کہ آئین کی آرٹیکل 10 اور ضابطہ فوجدار سیکشن 61 کے تحت تمام سیکورٹی ایجنسیز کسی بھی ملزم کو 24 گھنٹے کے اندر اندر عدالت میں پیش کرنے کی پابند ہیں اس سے زیادہ اپنی تحویل میں رکھنا غیرآئینی اور غیرقانونی عمل تصور کیا جائے گا۔
شبیر حسین نے ٹی این این کو بتایا "خیبرپختونخوا میں شہریوں کی 90 فیصد کیسز میں پولیس ہی ملوث ہوتے ہیں، خفیہ ادارے پولیس ہی کے ذریعے ملزم کو پکڑکر خفیہ اداروں کو حوالے کر دیتے ہیں جو مسنگ ہوجاتے ہیں”۔
شبیر کا کہنا ہے "میرے پاس ایسے کیسز بھی آئے ہیں جس میں ادارے ملزمان کو چند مہینوں یا سالوں بعد سامنے لے آتے ہیں، پھر اداروں کے ساتھ یہ خدشہ ہوتا ہے کہ یہ باہر جاکر پولیس یا اداروں کے خلاف عدالت میں کیس کرے گا تو اس سے بچنے کیلئے اس پر بارودی مواد یا بندوق ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ پولیس کے خلاف کاروائی کرنے کے قابل نہ رہے”۔
شبیر حسین نے اپنے پیاروں کے تحفظ کیلئے قانونی چارہ جوئی کے بارے میں بتایا کہ جب بھی کوئی شخص لاپتہ ہوجائے تو پہلے آن لائن کمپلینٹ، دوسرا وکیل کے ذریعے سیشن جج کو درخواست دینا اور تیسرا ہائی کورٹ میں رٹ کرنا چاہئے تاکہ کیس ریکارڈ پر آجائیں۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے 2011 میں کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپئرنسز کے نام سے کمیشن بنائی گئی ہے جس کے مطابق پاکستان میں 31 جنوری 2023 تک 9294 لاپتہ افراد کے مقدمات چل رہے ہیں جن میں 3804 گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔
کمیشن کے مطابق 977 افراد اداروں کی تحویل میں جبکہ 623 جیلوں میں قید ہیں، ان میں 241 لاپتہ افراد کی لاشیں ملی ہے، 5645 افراد معلوم جبکہ 1393 کے مقدمات ختم ہوچکے ہیں۔ کمیشن میں 2256 کی مقدمات زیر سماعت ہیں۔
چارسدہ میں پولیس کی جانب سے شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ افراد کے بارے میں جب پولیس ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے واقعے سے مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے موقف دینے سے گریز کیا جبکہ دیگر افسران نے بھی ان واقعات کے متعلق وضاحت نہیں دی۔