کیوں ہمیشہ عورت کو بلیک میل کیا جاتا ہے؟
رعناز
ویسے تو ہم ڈرامے انٹرٹینمنٹ کے لیے دیکھتے ہیں لیکن بعض اوقات ڈراموں میں ہمیں حقیقی زندگی بھی نظر آنے لگتی ہے کیونکہ کچھ ڈرامے بہت اچھے موضوعات پر بنے ہوتے ہیں۔ میں نے بھی ڈرامے میں ایسا ہی ایک سین دیکھا جس نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا۔ یہ ڈرامہ واقعی حقیقت پر مبنی تھا یہی چیزیں آج کل ہمارے ارد گرد بہت زیادہ ہو رہی ہے۔
میں جو ڈرامہ دیکھ رہی تھی تو اس میں مجھے ایک لڑکی دکھائی دی جو فون ہاتھ میں پکڑی ہوئی بہت پریشان نظر آرہی تھی۔ وہ لڑکی کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ بہت ہی زیادہ ڈری سہمی سی نظر آرہی تھی ۔بار بار اس کے فون پر کالز آرہی تھی ۔وہ مسلسل ان کالز کو کاٹ رہی تھی۔ جب وہ کال کاٹ دیتی تھی تو میسج آجاتا تھا ۔جب وہ نمبر کو بلاک کر لیتی تھی تو کسی دوسرے نمبر سے کالز آنا شروع ہو جاتے۔
دراصل اس لڑکی کو فون کالز اور میسجز کے ذریعے کوئی لڑکا تنگ کر رہا تھا۔ کہتا تھا تم مجھے پسند ہو۔ تم مجھ سے خود ملو ورنہ میں تمہارے سامنے آجاؤں گا۔ تم میرے ایک نمبر کو بلاک کرو گی تو میں تم سے دوسرے اور تیسرے نمبر سے رابطہ کروں گا۔ اس ڈرامے میں لڑکی کی اس ڈری سے حالت کو دیکھ کر تو مجھے بھی کچھ ہونے لگا۔ میری طبیعت بھی خراب ہونے لگی۔
خود کو تھوڑا سنبھالنے کے بعد میں سوچنے لگی کہ آخر اس مسئلے کو کیسے لوگوں کے سامنے لے کے آؤں تاکہ یہ حل ہو۔ بس اسی ٹائم میں نے قلم اٹھایا اور اس مسئلے پر لکھنے لگی۔
افسوس کہ ہمارا معاشرہ مسلسل منفی کاموں کی طرف جا رہا ہے۔ آخر عورت ذات کے ساتھ یہ زیادتی کیوں؟ کیوں ہمیشہ عورت کو بلیک میل کیا جاتا ہے ؟کیوں ہمیشہ عورت کو موبائل فون پر تنگ کیا جاتا ہے ؟ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان ساری چیزوں کا ایک عورت کی زندگی پر کتنے غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں کب تک عورت ذات مرد کے ہاتھوں ذلیل اور خوار ہوتی رہے گی۔ پتہ نہیں کب تک مرد ذات عورت کی خاموشی کا غلط فائدہ اٹھاتا رہے گا۔
اس معاملے میں اگر ہم لڑکی کے والدین کے بارے میں بات کریں تو کچھ والدین ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو اظہار رائے کی اتنی آزادی دی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ہر بات اپنے والدین سے شیئر کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی چیز یا مسئلہ شیئر کرنے میں وہ کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے پختون معاشرے میں کچھ والدین ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی سوچ اتنی زیادہ مثبت اور بڑی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے لڑکیاں والدین سے بات شیئر نہیں کرسکتی اور یوں وہ اندر ہی اندر ختم ہوتی جاتی ہے۔
وہ ڈپریشن کا شکار ہوتی جاتی ہے کیونکہ اس لڑکی کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو میں اس لڑکے یا کالز اور میسجز کے بارے میں اپنے والدین کو بتاؤں اور وہ الٹا مجھ پر ہی شک نہ کرے۔ ایسا نہ ہو ان کا اعتماد مجھ پر ختم ہو جائے۔ خدا نخواستہ یہ مجھے گھر میں قید نہ کریں۔ میرے باہر آنے جانے پر پابندی نہ لگائے کیونکہ زیادہ تر گاؤں اور دیہاتوں کے لوگ میں نے خود دیکھے ہیں کہ وہ رونگ یا ان نون نمبر سے کال یا میسج آنے پر لڑکی کو قتل تک کر دیتے ہیں۔ صرف اور صرف اس شک کی بنیاد پر کہ تمہارا کوئی نہ کوئی چکر ہوگا اس لڑکے کے ساتھ ۔ کسی لڑکی کو کال یا میسج پر تنگ کرنے سے پہلے ہمارے معاشرے کے لڑکوں کو صرف یہ سوچنا چاہیے کہ اگر کل کو ان کی بہن کو کوئی تنگ کرے تو ان کے دل پر اس وقت کیا گزرے گی۔
یقینا یہ لڑکے اپنی بہنوں کے لیے کبھی اس طرح نہیں چاہیں گے۔ تو پھر دوسروں کی ماں بہنوں کے لیے اتنی گندی سوچ کیوں ؟ ان کے معاملے میں یہ غلط اور بے ہودہ حرکت آخر کیوں؟
ہمارے معاشرے کے لڑکوں کو سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ لہذا ان کو یہ فون کالز اور میسجز پر تنگ کرنے والی حرکتیں چھوڑ دینی چاہیے۔ ان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان غلط حرکتوں کی وجہ سے ایک لڑکی کی زندگی پر کیا اثر ہوگا ۔اس لڑکی کی زندگی کتنی خراب ہو سکتی ہے۔ اس کا مستقبل کتنا اثر انداز ہو سکتا ہے۔ وہ کتنی تاریکیوں اور مسائل کا شکار ہو سکتی ہے۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزایم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔