کیا آج کل کے پشتو فلمز دیکھنے کے قابل ہیں؟
رعناز
ایک ہاتھ میں بندوق دوسرے میں شراب کی بوتل۔ سر پہ ٹیڑی ٹوپی۔ سینہ تھان کے چلنا۔ یقینا ان تین جملوں سے آپ کو بھی تھوڑا بہت اندازہ ہو گیا ہوگا کہ میں کس چیز کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔ جی ہاں میں بات کر رہی ہوں آج کل کے پشتو فلم انڈسٹری اور اداکاروں کی جو کہ آج کل نہایت ہی بے ہودہ قسم کی فلمیں بنا رہے ہیں۔ دراصل پشتو فلم انڈسٹری تو پشتون تہذیب کی عکاسی کرتا ہے لیکن افسوس کہ آج کل کے فلموں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔
پشتون معاشرہ تو حیا اور پاک دامنی کا ایک جیتا جا گتا ثبوت ہے۔ لیکن افسوس اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج کل کے پشتو فلمز میں تو کچھ اور ہی دکھایا جا رہا ہے۔ نہ ہی ان کے بوئے ہوئے الفاظ سننے کے قابل ہوتے ہیں اور نہ ہی پہنا ہوا لباس دیکھنے کے قابل ہوتا ہے بلکہ صرف اور صرف بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے جو کہ معاشرے کے لوگوں پر بہت ہی زیادہ منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
اگر ہم پہلے زمانے کی فلموں کو دیکھیں تو وہ بہت ہی صاف اور سبق آموز فلمیں ہوا کرتی تھی۔ ان فلموں کا مرکزی خیال بہت ہی خوبصورت اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے پر منحصر ہوا کرتا تھا۔ مثلا وہ فلمیں زیادہ تر تعلیم ،دشمنی ختم کرنے اور ونی جیسے اہم موضوعات پر بنا کرتی تھی۔ ان فلموں کو انسان اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر بھی دیکھ سکتا تھا۔ ساتھ ساتھ اس سے انسان کوئی نہ کوئی سبق بھی حاصل کر لیتا تھا۔
لیکن اس کے برعکس آج کل کی پشتو فلمیں سبق اموز تو کیا دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ آج کل کی پشتو فلمیں ہماری نوجوان نسل پر کیسے اثر انداز ہو رہی ہے؟ یہ فلمیں ہمارے نوجوان نسل کو بگاڑ رہی ہے۔ ان میں بے حیائی پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان میں بندوق کے ساتھ پیار کرنے کا مادہ ڈال رہی ہے جو کہ بہت ہی بری چیز ہے۔
مثال کے طور پر اگر 15 ،16 سال کا بچہ یہ فلمیں دیکھے گا۔ ان فلموں میں اسلحے کے استعمال کو دیکھے گا تو یقینا وہ بچہ بھی اسلحے کا غلط استعمال کرنا شروع کرے گا۔ ہم اپنے بزرگوں سے ہمیشہ یہ بات سنتے آرہے ہیں کہ شراب پینا حرام ہے لیکن پشتو فلمز میں شراب کا استعمال کھلے عام ہو رہا ہے۔ شراب کو پانی کی طرح پیا جا رہا ہے۔ ان فلموں کی وجہ سے شراب کے حرام اور حلال کا فرق معاشرے سے ختم ہو رہا ہے۔ معاشرے میں بے حیائی پھیلاتی جا رہی ہے۔اچھے برے، حیا اور بے حیائی میں فرق ختم ہوتا جا رہا ہے۔
ہاتھ میں بندوق،سر پر ٹیڑی ٹوپی یہ پشتون ثقافت نہیں ہے بلکہ یہ پشتون ثقافت پر دھبہ ہے۔ یہ پشتو فلم انڈسٹری پشتون ثقافت کی توہین کر رہی ہے۔ نہ صرف اور ممالک بلکہ پاکستان کے اور صوبوں میں بھی یہ پشتون ثقافت کی غلط نمائندگی کر رہی ہے۔
یہ پشتو فلم انڈسٹری پاکیزگی اور حیا کو ختم کرتی جا رہی ہے۔ کیا آپ کو یہ پتہ ہے کہ دوسرے ممالک پشتونوں کو دہشت گرد کیوں کہہ رہے ہیں؟ میرے خیال میں تو اس کی ایک وجہ یہی پشتو فلمز ہے جس میں ہر وقت گولیوں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ ہر بھائی دوسرے بھائی کا دشمن ہوتا ہے۔ عورت ہمیشہ بے حیا اور طوائف کے حلیے میں ہی نظر آتی ہے۔
یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو کہ پشتو فلم انڈسٹری اپنے فلمز میں دکھا رہی ہے۔ اس سے پشتون ثقافت کی توہین ہو رہی ہے۔ ان فلموں میں دکھایا جانے والا تشدد اور اسلحے کی نمائش انتہائی غلط ہے۔ ان فلموں میں پیش کی جانے والی بے حیائی نے پشتون مرد و اور عورتوں کو اخلاق باختہ کر دیا ہے۔ آج کل کے پشتون فلموں نے تو پرانے فلموں کی دھجیاں اڑا دی ہے۔ انہوں نے پشتون ثقافت کی غیرت و شجاعت کو فراموش کر دیا ہے۔
غرض پشتو فلم انڈسٹری کو پشتون ثقافت کی غلط عکاسی کو بند کر دینا چاہیے۔ بالکل ویسے ہی معیاری اور سبق اموز فلمیں بنانی چاہیے جو پہلے زمانے میں بنا کرتی تھی۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزام کنٹرولر ہے اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہے۔