بلاگزلائف سٹائل

صفائی کرنے والوں سے اتنی نفرت کیوں کی جاتی ہے؟

 

نازیہ

آج بات کرتے ہیں معاشرے کے ان افراد کی جو  شہروں، گاؤں، گلیوں، گھروں اور سڑکوں سے ہماری پیدا کردہ غلاظت کو صاف کر کے ہمارے چلنے پھرنے اور رہنے کے قابل بناتے ہیں۔ اس کے بدلے میں یہ معاشرہ ان کے ساتھ کس انداز سے پیش اتا ہے کا ذکر میرے بلاگ میں آگے ارہا ہے۔

آج معاشرے کے یہ افراد اگر کام کرنا بند کر دیں یا ہڑتال پر چلے جائیں تو تصور کیجیے کہ ہمارے شہروں، گھروں، اسکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں اور گلیوں کا کیا حال ہو گا؟

گندے پانی کے نالوں، نالیوں اور گٹروں کے پائپ اگر بند ہو جائیں اور کوئی کھولنے والا نہ ہو اور غلاظت ہمارے چاروں طرف پھیل رہی ہو تو کیا منظر ہو گا؟

صفائی نصف ایمان ہے

ارے ظالموں صفائی تو نصف ایمان ہے۔ صفائی کا خیال کرنے والا اور صفائی کرنے والا دونوں قابل تعریف ہے لیکن ہمارے معاشرے میں صفائی کے عملے کے ساتھ پھر بھی انتہائی ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ جب اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے تو اخر صفائی کرنے والوں سے اتنی نفرت کیوں کی جاتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو صفائی کے پیشے سے وابستہ افراد اکثر پوچھتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ انکی دل آزاری بھی ہوتی ہے۔

 

باہر کی دنیا میں صفائی کا عملہ

 یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتی ہوں کہ ساری مہذب دنیا میں کچرا جسے عرف عام میں کوڑا بھی کہا جاتا ہے تھیلوں میں بند ہوتا ہے یہ ہی نہیں مختلف قسم کے کچرے کی نشاندہی مختلف رنگوں کے تھیلوں سے ہوتی ہے۔ اور کسی میں اتنی جرات نہیں کہ کچرے کو غلط تھیلے میں ڈال دے۔ ہر کچرے کا ایک دن مقرر ہوتا ہے۔ اپنے مقررہ دن پر گاڑی آتی ہے اور ایک رات قبل رکھے گئے تھیلے اٹھا کے لے جاتی ہے۔ نہ کوئی تھیلا پھٹا ہوتا ہے، نہ کسی کا منہ کھلا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی میں سے کچرا ٹپک رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی فرد مقررہ دن پر تھیلا رکھنا بھول جائے تو اس کو ٹھکانے تک پہنچانا اسکی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کام پے مامور گاڑی نہ صرف چمکتی دمکتی ہوتی ہے فرض کی ادائیگی پر مامور افراد بھی صاف ستھری ڈانگریوں میں ملبوس ہوتے ہیں۔

اس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ باہر ممالک میں فی گھنٹہ حساب سے کام کرنے والوں میں میونسپل کارپوریشن کے ملازمین کی فی گھنٹہ ادائیگی سب سے زیادہ ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔

برے القابات سے پکارنا

 یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے ہمارے معاشرے میں صفائی ستھرائی کے کام پر مامور افراد کے ساتھ ہمارا معاشرتی رویہ بہت ظالمانہ اور حقیرانہ ہے۔ ہم انھیں ناموں سے مخاطب کرنے کی بجائے طرح طرح کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ انھیں تیسرے چوتھے درجے کا انسان سمجھتے ہیں۔ روز مرہ کی زبان میں بھنگی، چوڑے، جمعدار، خاک روب جیسے القابات سے پکارتے ہیں اور معاوضہ دیتے وقت ہمارے ہاتھ سکڑ جاتے ہیں۔

پاکستانی آئین کی کس شق میں یہ لکھا ہے کہ صفائی ستھرائی کا کام غیر مسلموں کا ہے؟ آج تک مجھے یہ بات بھی سمجھ نہیں آ سکی ہم نے یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ ہمارے گھروں، گلیوں، بازاروں، چوراہوں، اسکولوں، ہسپتالوں، دفتروں سے ہر قسم کی گندگی، غلاظت اور کوڑا کرکٹ ہندو یا عیسائی ہی اٹھائیں گے؟

میرے علم کے مطابق ہمارا مذہب ہمیں صفائی ستھرائی کا حکم دیتا ہے لیکن یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ صفائی کا کام ہمارے بجائے کسی دوسرے عقیدے یا مذہب کے لوگ کریں گے۔

معاوضہ کی ادائیگی

ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ صفائی عملہ کو  ڈیلی ویجز پر بھرتی کیا جائے تاکہ ان کو مراعات نہ دینے پڑے جس کی وجہ سے ڈیلی ویجز ملازم اگر اتوار کو بھی چھٹی کرلے تو اس کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ اور تو اور بیماری کی صورت میں بھی صفائی کے کام سے وابستہ افراد کو چھٹی لینے کا حق تک حاصل نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے زیادہ تر افراد مجبوری میں ہی صفائی کا کام کرتے ہیں۔ سردی ہو یا گرمی، بیماری ہو یا کوئی اور ایمرجنسی صفائی کے کام سے وابستہ افراد ہر صورت میں کام کرتے نظر آتے ہیں مگر اس کے باوجود حکومت ان سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ وقت بہت بدل چکا ہے۔ دنیا میں آج وہی اقوام پھل پھول رہی ہیں جو فرد کی عزت اس کے کام اور پیشے کی بنیاد پر نہیں بلکہ بحیثیت فرد کے کرتی ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ صفائی کے کام سے وابستہ افراد کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے انکے ساتھ تعاون کرے۔ اس کام سے وابستہ افراد کو رسک الاؤنس اور ہیلتھ الاؤنس دیا جائے تو اس سے نہ صرف ان کی معاشی حالت بہتر ہوگی بلکہ سماج میں ان کے ساتھ جو تفریق کی جاتی ہے وہ بھی کسی حد تک ختم ہو سکتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button