بلاگزلائف سٹائل

غزہ بچوں کا قبرستان بن چکا ہے

 

نازیہ

ہر سال 20 نومبر کو بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے علاوہ بچوں کی فلاح و بہبود کے مقاصد کو اجاگر کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بے گھر بچوں کو دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا، چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسف بھی اس دن کو منانے میں پیش پیش رہتا ہے۔

مگر اس بار بچوں کے حقوق کا عالمی دن ایک ایسے وقت میں منایا گیا جب 23 لاکھ آبادی پر مشتمل فلسطین جس کی نصف آبادی بچوں پر مشتمل ہے ایک وحشت ناک اور قیامت خیز وقت سے گزر رہا تھا۔ یعنی فلسطین کے ساڑھے گیارہ لاکھ بچے جن کی عمریں 15 سال سے کم ہے انکو کوئی حقوق حاصل نہیں ہے اور انکو جان سے مارا جارہا ہے۔

ان بد قسمت بچوں کا تو ایک ایک لمحہ موت سے لڑتے ہوئے گزرتا ہے۔ کئی بچے تو ملبے کے ڈھیر میں آنکھیں بند کرتے ہیں اور بموں کی گھن گرج میں آنکھیں کھولتے ہیں اور بارود کی بو میں سانس لیتے ہیں۔ ان بچوں کو میں بدقسمت بچے کیسے نہ کہوں جو نہ تو پناہ گزین کیمپوں میں محفوظ ہیں اور نہ ہی ہسپتال میں۔ نہ تو ان کے سکول باقی ہیں اور نہ ہی ان کے گھر محفوظ ہیں بس ہر طرف ملبے کے ڈھیر ہے۔ نا جانے کب سے عزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل اور بچوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ اسرائیلی فوج نے نہ صرف رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا بلکہ ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشا۔

 

بچوں کی اموات

فلسطینی حکام کے مطابق غزہ میں اب تک اسرائیلی حملوں میں 5500 معصوم بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ دل تو خون کے انسو تب روتا ہے جب ہر 10 منٹ بعد ایک بچہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ظلم صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ اب تک بمباری کی وجہ سے 1800 بچے ملبے تلے دب چکے ہیں جن میں اکثریت کی شہادت ہو چکی ہے۔ مگر اس تباہ کن صورتحال، ظلم اور بربریت کے باوجود اسرائیل کی ہٹ دھرمی اپنی جگہ برقرار ہے اور ان معصوم بچوں کی سسکیاں اور آہ و زاری ظالم فوج کے پتھر دل کو پگھلا نہ سکی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کے حملوں میں اب تک 9 ہزار کے قریب فلسطینی بچے شدید زخمی ہوئے ہیں جن میں تو زیادہ تر بچے زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حملے ان ہزاروں بچوں کے ذہنوں پر تکلیف دہ نقوش چھوڑ رہے ہیں جس کا مداوا شاید یہ دنیا کبھی نہیں کر پائے گی۔ مگر پتہ نہیں یہ دنیا کس منہ سے بچوں کے حقوق کا عالمی دن مناتی ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایک طرف مغرب انسانی حقوق کی چیمپین ہے بلکہ وہ انسانوں ہی کے نہیں بلکہ جانوروں کے حقوق کے بھی علمبردار ہیں۔ مگر یہاں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے غزہ میں معصوم بچوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ ظلم جبر بربریت کی نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ دانستہ طور پر بچوں کو نشانہ بنا کر فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ مگر پوری دنیا میں کہیں سے بھی ان معصوم بچوں کے حقوق کے لیے موثر آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔ دکھ تو تب ہوتا ہے کہ مغرب اگر ظالم کے ساتھ کھڑا ہے تو مسلم ممالک کی بے حسی اور خاموشی نے انہیں بھی اسی صف میں لا کھڑا کیا ہے کیونکہ 57 اسلامی ممالک کے حکمران سوائے مذمت کے کوئی ایک حرف بھی نہیں کہہ سکے اور نا کہہ سکتے ہیں۔

فلسطینی بچوں کے دل کو چیرنے والے الفاظ  

کئی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جس نے لوگوں کے دلوں کو چیر کر دیا ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک ادمی یہ بات کرتے کرتے بے ہوش ہو گیا کہ میں اس بچی کو کیسے بتاؤں گا کہ اپ کے ماں باپ اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ ایک اور ویڈیو ہے کہ جس میں ایک والد اپنی چھوٹی بیٹی کی میت پہ رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میری یہ بچی کیسے قبر میں جائیں گی اس کو تنگ جگہوں سے اور اندھیروں سے بہت زیادہ ڈر لگتا تھا مجھے بھی اس کے ساتھ دفن کرو تاکہ میں اس کا وہاں پر خیال رکھ سکوں۔

غزہ کے ہسپتال میں ایک بچی کو اس کی ماں کے قریب لایا گیا تھا کہ وہ اپنی ماں کو پہچان سکے لیکن اس نے پہلے ہی سے اپنی ماں کو پہچان لیا تھا اور کہہ رہی تھی کہ یہ تو میری امی ہے میں اس کو اس کے بالوں سے پہچانتی ہوں یہ تو مجھے نظمیں سنایا کرتی تھی یہ انکھیں کیوں نہیں کھول رہی۔

بربریت کی انتہا تو دیکھو ذرا کہ اسرائیل نے غزہ میں ادویات اور غذائی ضرورت کی اشیاء روک  دی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی بچے تڑپ اور سسک رہے ہیں۔

ارے ظالموں اس جنگ کا شکار معصوم بچے ہیں جو کہ فلسطین کا مستقبل ہیں۔ ظالم اسرائیل دانستہ طور پر فلسطین کا حال اور مستقبل آگ، خون اور بارود میں جھلسا رہا ہے۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک فلسطین کے بچوں کے حقوق پامال ہوتے رہے گے، جب تک فلسطین کے بچوں پر ظلم، جبر اور وحشت و بربریت کے پہاڑ ٹوٹتے رہے گے، جب تک فلسطینی بچوں کے گھر اور سکول ملبے کا ڈھیر بنتے رہیں گے اور جب تک فلسطینی بچے ہسپتالوں میں تڑپتے و سسکتے رہے گے اس وقت تک بچوں کے حقوق اور حقوق کے حوالے سے دن منانا بے معنی اور بے مقصد ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button