جرائم

چارسدہ میں ٹک ٹاک، موسیقی اور خواجہ سراؤں کے ناچنے پر پابندی کا اعلان

 

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے تھانہ پڑانگ میں تعینات ایس ایچ او نے مسجد میں اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکے علاقے میں موسیقی، خواجہ سراؤں کے ناچ گانے، رات دس بجے کے بعد ‘بلاضرورت’ گھر سے باہر نکلنے اور ٹک ٹاک پر پابندی ہے۔
پولیس کے اس بیان کو قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکن اپنے اختیارات سے تجاوز اور نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پولیس کا بنیادی فرض ملک میں مروجہ قوانین کا نفاذ ہے نہ کہ وہ خود اپنی خواہشات کے مطابق احکامات جاری کرے۔

اتوار کے روز ضلع چارسدہ کے تھانہ پڑانگ میں نو تعینات کیڈٹ ایس ایچ او عبدالعلی نے غازی گل بابا مسجد میں دستار بندی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قبضہ گروپ، منشیات فروشوں، جرائم پیشہ افراد سے ملتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔

اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کروائیں

انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو میں کہا ” اللہ تعالٰی سے ڈرتا ہوں، اسکے احکامات پر چلتا ہوں، وہ حاکم ہے ہم خادم ہیں، بس بات ختم۔ جو اللہ کے احکامات ہو وہی زمین پر نافذ ہوگی۔ ان میں جن چیزوں پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے تو اس پر ایس ایچ او بھی ناراض ہوتا ہے، اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کروائیں”۔
ویڈٰیو میں آگے عوام کو تنبیہ کر دیتے ہیں "بالخصوص گانے، خواجہ سراؤں کو نچانے والے اور رات کے وقت بلا ضروت گھومنے پھرنے پر پابندی ہوگی، ٹک ٹاک دیکھنے والوں کو پکڑا گیا تو موقع پر سزا دونگا۔ اسلئے ایسے کاموں میں ملوث افراد فوراً علاقہ چھوڑیں ورنہ بخشا نہیں جائے گا”۔

قانونی و آئینی ماہرین نے ایس ایچ او کے مذکورہ بیان کو انسانی حقوق اور پولیس رولز کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان نے ٹی این این کو بتایا کہ پولیس کی ذمہ داری مورل پولیسنگ نہیں بلکہ لیگل پولیسنگ ہے۔ کہتے ہیں جب کہیں پر جرم واقعہ ہوجائے تو پولیس اسکے خلاف مقدمات درج کریں گے اور مقدمے کے شواہد کو دیکھتے ہوئے عدالت اس کی سزا کا تعین کرے گی۔
طارق افغان کہتے ہیں کہ آئین پاکستان اور قوانین شہریوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔ پولیس اہلکار آئین پاکستان اور قانون کے محکوم ہیں اور وہ پابند ہیں کہ قانون ساز اسمبلی کے بنائے گئے قوانین اپنے ہی علاقے میں نافذ کریں جبکہ یہی حکم شریعت بھی دیتی ہے۔۔

کسی کو موقع پر سزا دینا پولیس کی ڈیوٹی نہیں

وکیل طارق افغان کہتے ہیں "کسی کو موقع پر سزا دینا، دیوار کے ساتھ ٹکرانا پولیس کی ڈیوٹی نہیں۔ قانون میں پولیس کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کو ہدایات دیں کہ بچوں کو مدارس میں داخل کروائیں، ٹک ٹاک اور فیس بک دیکھنے سے پرہیز کرے۔ تو اس ضمن میں متعلقہ ایس ایچ نے اپنی قانونی حدود سے تجاوز کی ہے”۔
مذکورہ ایس ایچ او نے گزشتہ سال ماہ نومبر میں بھی اس قسم کے بیانات اس وقت دیئے تھے جب وہ پشاور تھانہ شاہ پور کے ایس ایچ تھے۔

اس وقت ایس ایچ او عبدالعلی نے علاقہ مکینوں کو حکم دیا تھا کہ مذکورہ تھانے کی حدود میں ہر قسم کے فیصلے شریعت کے مطابق کئے جائیں گے جبکہ شادی بیاہ و خوشی کی دیگر تقریبات میں موسیقی پر مکمل پابندی ہو گی ورنہ (خلاف ورزی کی صورت میں) متعلقہ افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

ایس ایچ او کا بیان سراسر نیشنل ایکشن پلان 2014 کی خلاف ورزی ہے

انسانی حقوق کے کارکن و صحافی سید شاہ رضا کہتے ہیں کہ ایس ایچ او کا بیان سراسر نیشنل ایکشن پلان 2014 کی خلاف ورزی ہے جن میں نفرت انگیز تقاریر، انتہاپسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت فروغ دینے والے افراد کے ساتھ سختی سے نمٹنا ہے مگر ایس ایچ او کے بیان میں ان سارے نقاط کو ہوا دی گئی ہے۔
شاہ رضا شاہ کہتے ہیں ” اس معاشرے میں مختلف الخیال لوگ زندگی گزار رہے ہیں، ہر شخص کا اپنا قانونی انتخاب ہے۔ کوئی موسیقی، ٹک ٹاک اور آزاد گھومنا پھر پسند کرے گا اور کوئی پسند نہیں کرے گا لیکن اپنی خواہشات کے مطابق عوام پر اپنی ذاتی فیصلے نافذ کرنا سراسر قانون کی خلاف ورزی ہے”۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس کو اختیار ہے کہ ہر وہ کام کو روکیں جس کا قانون میں ممانعت ہے مگر پولیس تاحال علاقے سے منشیات کی خریدو فروخت اور نہ استعمال کی روک تھام میں کامیاب ہوئی ہیں۔
شاہ رضاہ شاہ کہتے ہیں ” پولیس ایس ایچ او کا بیان انتہاپسندی اور شدت پسندی کی سوچ پھیلانے کا واضح ثبوت ہے۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ خود کو علاقے کا بادشاہ نہ بنائیں کیونکہ خلاف قانون و آئین حکم جاری کرنے کا اختیار وزیراعظم اور آرمی چیف کو بھی حاصل نہیں ہے”۔

انتہاپسندی کی روک تھام محکمہ پولیس کیلئے ایک چیلنج بن چکی ہے

ایس ایچ او عبدالعلی پولیس کو محکمہ پولیس میں کیڈٹ عبدالعلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو پولیس ٹریننگ سنٹر ہنگو میں تین سال تک بطور انسٹرکٹر اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں جن کی زیرنگرانی سینکڑوں پولیس تربیت لے چکے ہیں۔

شاہ رضا شاہ کہتے ہیں کہ انتہاپسندی کی روک تھام محکمہ پولیس کیلئے ایک چیلنج بن چکی ہے کیونکہ ان کے اپنے ادارے میں ایسے لوگ دیگر پولیس کو تربیت دے رہے ہیں جو خود انتہاپسند سوچ کی حامی ہو تو اس صورت میں محکمہ پولیس کو اپنے ادارے میں جھانکنے اور تطہیر کا عمل سنجیدگی سے شروع کرنا چاہئے۔
چارسدہ پولیس کے ساتھ ٹی این این نے بار بار رابطہ کیا لیکن کوئی جواب یا موقف نہیں دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حکام نے مذکورہ ایس ایچ او کو دفتر بلا کر غیرقانونی بیانات سے روکنے کی تنبیہ کی ہے۔
ياد رہے کہ گزشتہ جولائی میں ضلع چارسدہ کے تھانہ خانمائی پولیس نے شیو کرنے پر پابندی کا اعلان کیا تھا جس پر ڈی پی اوچارسدہ نے ایکشن لے کر مذکورہ ایس ایچ او کو معطل کیا تھا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button