"خواتین سیاستدان بس شو پیس ہی بن کر رہ جاتی ہیں”
نسرین جبین
عام انتخابات کے ذریعے قانون ساز اداروں کا حصہ نا بن سکنے والی خواتین اراکین کی نا تو اپنی پہچان ہوتی ہے نا حلقہ اور نا ہی انکو فنڈز ملتے ہیں بس شو پیس ہی بن کر رہ جاتی ہیں۔ یہ کہنا ہے دس سال سے مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن رہنے والی اور 2018 این اے 23 پشاور کے لئے عام انتخابات میں الیکشن لڑنے اور شکست سے دوچار ہونے والی خاتون امیدوار طاہرہ بخاری کا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین اراکین اسمبلی کی کوئی حیثیت، اہمیت، وقعت نہیں ہوتی۔ خواتین پورے صوبے میں کام کرتی ہیں اور مردوں سے زیادہ خدمات سرانجام دیتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں اسمبلی میں شو پیس ہی سمجھا جاتا ہے۔ اپنی سیاسی حیثیت منوانے کے لئے عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہو کر آنے والے کو ہی حقیقی ایم پی اے تصور کیا جاتا ہے اور فنڈز و مراعات بھی انہی کو ملتی ہیں۔ خواتین بہترین سیاستدان تب ثابت ہونگی اور حلقے کے مسائل کے حل کے لئے بہترین اقدام کر سکیں گی جب انکو فنڈز دیئے جائیں گے۔ جب وہ کسی حلقے میں کام کریں گی تو پھر وہ انتخابات میں جیت سکتیں ہیں۔
خواتین کی ایک بڑی تعداد ٹکٹ کے حصول سے محروم رہ جاتی ہیں
خواتین عام انتخابات میں جنرل سیٹ پر ٹکٹ کی تقسیم عدم صنفی مساوات کا شکار ہیں۔ یہ تقسیم صنفی مساوات کے اصولوں کے منافی کی جاتی ہے۔ کارکن خواتین کی ایک بڑی تعداد ٹکٹ کے حصول سے محروم رہ جاتی ہیں اور نا چاہتے ہوئے بھی وہ مخصوص نشتوں پر رکن بنا دی جاتیں ہیں۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد عام انتخابات میں حصہ لینا تو چاہتی ہیں لیکن اسمبلی کی تاریخ میں صرف وہی خواتین عام انتخابات میں منتخب ہو کر آسکیں جن کا سیاسی خاندانی بیک گراؤنڈ تھا یا ان کے مردووں کا ووٹ بینک تھا۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے کارکن خواتین کو ٹکٹس ہی نہیں دیے جاتے۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے 2017 میں کی گئی قانون سازی کے مطابق سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں کم از کم پانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کا پابند بنایا گیا اور ضروری قرار دیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں پانچ فیصد ٹکٹس خواتین کو دیں گی جس کے تحت سال 2018 کے انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں نے خواتین کو ٹکٹس دیے لیکن کئی سیاسی جماعتوں نے خواتین کو اس حق سے محروم رکھا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 145 ہے جبکہ خواتین کی نشستوں کی مخصوص تعداد 26 اور اقلیتی نشستیں 6 ہیں۔ اسمبلی میں خواتین مخصوص نشستوں پر ہی اسمبلی کی رکن بن سکیں جبکہ چند خواتین ہی عام انتخابات میں جیت کر آئیں لیکن وہ کارکن خواتین نہیں بلکہ خاندانی سیاسی بیک گراؤنڈ کی حامل خواتین تھیں۔ 1988 کے عام انتخابات میں بیگم نسیم ولی خان جن کا اپنا ایک خاندانی سیاسی بیک گراؤنڈ تھا ان کا چارسدہ میں اپنا ووٹ بینک تھا اور ان کے خاندان کا نام تھا جس کی وجہ سے انہیں اسمبلی میں لایا گیا۔ ان کے علاوہ سال 2013 کے انتخابات میں حبیب الرحمن تنولی ایبٹ آباد سے قومی وطن پارٹی کے امیدوار تھے وہ وفات پا گئے تو ان کی بیٹی غزالہ حبیب نے جنرل الیکشن لڑا اور وہ کامیاب ہو کر اسمبلی کا حصہ بنیں۔ الیکشن 2018 میں چند روز پہلے الیکشن کی مہم کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور امیدوار ہارون بلور ایک دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تو ان کی اہلیہ جو کہ ہاؤس وائف تھی نے ان کی سیٹ پر الیکشن لڑا اور کامیاب ہو کراسمبلی کا حصہ بن گئیں۔
2018 کے عام انتخابات اور خواتین امیدوار
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری اعداو شمار کے مطابق جنرل الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے ٹکٹس اور آزاد حیثیت سے میدان میں مجموعی طور پر 42 خواتین نے انتخابات میں حصہ لیا جن میں صوبائی اسمبلی کے 29 اور قومی اسمبلی کی 15 نشستوں پر الیکشن لڑا گیا۔ NA-46 قبائلی علاقہ جات (Vii) کرم ضلع سے علی بیگم خان نے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا کی 8 خواتین کو ٹکٹس دیئے جنہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے پشاور ، دیر ، چارسدہ ،کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے الیکشن میں حصہ لیا۔ ان میں صوبائی اسمبلی کے لئے پانچ اور قومی اسمبلی کے لئے 3 خواتین شامل تھیں۔ این اے 23 پشاور کے لئے سابق رکن قومی اسمبلی طاہرہ بخاری ، این اے 27 پشاور کے لئے سابق ایم پی اے ثوبیہ شاہد اور این اے 7 دیر کے لئے بھی شوبیہ شاہد کو ٹکٹ دیا گیا جہاں ان کا مقابلہ ایم ایم اے کے امیدوار سراج الحق سے ہوا۔ جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے پی کے 98 ڈیرہ اسماعیل خان سے خورشید بی بی، پی کے 60 چارسدہ سے فرخ خان، پی کے 58 چارسدہ سے سمیرا اور پی کے 80 اور 82 کوہاٹ سے جمیلہ پراچہ کو عام انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی نے عام انتخابات میں خواتین کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے پانچ اور قومی اسمبلی کے لئے ایک ٹکٹ دیا۔ ایبٹ آباد اور ہری پور سے چھ خواتین کو ٹکٹس جاری کئے ہیں جن میں قومی اسمبلی کی نشست ہری پور17 کے لئے ارم فاطمہ جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں ایبٹ آباد 36 کے لئے روبینہ زاہد، 37 کے لئے رخسانہ بی بی، 38 کے لئے بی بی شہناز راجہ، ہری پور 40 کے لئے فرزانہ شاہین، اور 41 کے لئے سائرہ سید کو ٹکٹس دیئے گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف گلالئی کی سربراہ عائشہ گلالئی نے بیک وقت خیبر پختونخوا، اسلام آباد، پنجاب اور سندھ سے قومی اسمبلی کے 4 حلقوں کے لیے انتخابات میں حصہ لیا۔ مسلم لیگ (ق)، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی )، پی ایس پی، پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر ایک، ایک خاتون نے انتخاب لڑا لیکن ان میں ایک خاتون بھی رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوئیں۔ کیونکہ ان تمام نشستوں پر خواتین کا مقابلہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سرکردہ سیاسی رہنمائوں سے تھا جو کہ یقینی طور پر اپنا سیا سی بیک گرائونڈ اور ووٹ بینک رکھتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف مختلف سیاسی پارٹیوں کی بہترین سیاسی شعور رکھنے والی خواتین اراکین انیسہ زیب، ڈاکٹر مہر تاج روغانی، زرین ضیا، معراج ہمایوں، شگفتہ ملک، نگہت اورکزئی، عظمیٰ خان، دینا ناز سمیت کئی خواتین جنرل نشست پر ٹکٹ حاصل کرنے سے محروم رہیں جبکہ انکے جیتنے کی امید زیادہ تھی۔
قبائلی اضلاع اور خواتین امیدوار
سابقہ قبائلی اضلاع کا خیبر پختونخوا میں انضمام ہونے کے بعد 2019 میں جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ نے مسیحی برادری کی ثریا بی بی کو ضلع خیبر کی جنرل سیٹس پرٹکٹ دیا جبکہ عوامی نیشنل پارٹی نے ناہید آفریدی کو حلقہ پی کے 106 خیبر ٹو سے ٹکٹ دیا۔ اور پی کے 109 کرم ٹو سے ملاسہ نامی ایک خاتون امیدوار نے جماعت اسلامی کی ٹکٹ پرانتخاب میں حصہ لیا۔ قبل ازیں NA-46 قبائلی علاقہ جات کرم ضلع سے علی بیگم خان عام انتخابات میں میدان میں تھیں۔
خواتین کارکن امیدوار تاریخ کے آئینے میں
2018 کے عام انتخابات میں 105 خواتین نے پارٹی ٹکٹ پر جبکہ 66 خواتین نے آزادانہ حیثیت سے حصہ لیا جبکہ 2013 کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والی خواتین کی تعداد 135 جبکہ پارٹی ٹکٹ پر انتخابات کا حصہ بننے والی خواتین کی تعداد 74 تھی۔ اسی طرح 2008 کے الیکشن میں کل 72 خواتین عام انتخابات میں شامل تھیں جن میں 41 خواتین پارٹی ٹکٹ اور 3 آزادانہ حیثیت سے انتخابات میں کھڑی ہوئیں تھی۔
الیکشن میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم بلیو وینز کے سربراہ قمر نسیم کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو حقیقی معنوں میں سیاسی منظر نامے پر لانا ہی نہیں چاہتی اور کارکن خواتین کے پاس مالی ذرائع نہیں ہیں کہ وہ انتخابات کے اخراجات برداشت کر سکیں اس لیے وہ پیچھے رہ جاتیں ہیں۔ ہم اپنے طور پر خواتین میں سیاسی شعور اجاگر کرکے انہیں تربیت دینے اور عام انتخابات میں آگے لانے کے لیے کوششیں کرتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی تربیت کی جانی چاہیے تاکہ وہ ملک کی آدھی آبادی کی بہترین نمائندگی کریں اور الیکشن کمیشن انکی باقاعدہ مانیٹرنگ کرے۔ خاتون ووٹر سکول ٹیچر شازیہ نورین کا کہنا ہے کہ خواتین کو ساسی جماعتوں میں بڑے عہدے دیں اور انہیں جیتنے والی نشستوں پر ٹکٹس دیں تاکہ قانون ساز اداروں میں خواتین پہنچ کر اپنا حقیقی سیاسی کردار ادا کر سکیں۔