سیاسی اور مذہبی جلسوں میں کوریج کے دوران صحافیوں کو ہراساں کیوں کیا جاتا ہے؟
سلمان یوسفزئی
"یہ 9 مئی کا دن تھا۔ ہم معمول کے مطابق رپورٹنگ کے لیے قعلہ بالاحصار کے قریب گئے جہاں پہلے سے موجود مشتعل مظاہرین سرتاپا احتجاج تھے۔ اس دوران مظاہرین کی جانب سے ایدھی ایمبولنس کو آگ لگا دی گئی جس کی فوٹیج بنانے کے لیے کیمرہ پرسن ایمبولنس کے قریب گئے لیکن پاکستان تحریک انصاف کے جھنڈے ہاتھوں میں لیے مشتعل مظاہرین نے کیمرہ پرسن کو گھیر لیا اور کوریج سے منع کر دیا۔”
ذاکراللہ گزشتہ کئی سالوں سے پشاور میں نجی ٹیلی ویژن چینل "دنیا نیوز” کے ساتھ بطور رپورٹر کام کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اُس روز متعدد میڈیا اداروں کے ڈی سی این جیز اسمبلی سائیڈ پر کھڑی تھیں اور وہاں پولیس بھی موجود تھی جو مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کر رہی تھی جبکہ وہ اور ان کا کیمرہ پرسن عزیز اللہ مظاہرین کے درمیان کھڑے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
ذاکر کے مطابق وہ بہت مشکل وقت تھا: "مشتعل مظاہرین نے عزیزاللہ کو گھیر لیا تھا اور اس سے کیمرہ چھین کر زدوکوب کیا تھا۔ میں جب وہاں پہنچا تو عزیز اللہ کے کپڑے بھی پھاڑے گئے تھے اور وہ کافی ڈرا ہوا لگ رہا تھا۔” ان کے بقول انہوں نے بڑی مشکل سے مظاہرین سے بات کی اور اس شرط پر وہاں سے نکل گئے کہ ان کی فوٹیج نہیں بنائی جائے گئی کیونکہ وہ اپنے لیڈر کی گرفتاری کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں۔ لیکن وہ کیفیت آج بھی ان کے ذہن پر سوار ہے کیونکہ اُس روز ان کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
ذاکراللہ کے مطابق چونکہ ایک صحافی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سیاسی جلسوں، مظاہروں اور دیگر ایونٹس کو کور کرے تاہم اکثر ایسے حالات بن جاتے ہیں جہاں صحافی خود کو غیرمحفوظ سمجھتا ہے لیکن مجبوراً وہاں جا کر اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے اور اس قسم کے واقعات کے سامنا کرتا ہے۔
"ہمیں علم تھا کہ مشتعل مظاہرین کے بیچ جا کر کوریج کرنا ہماری سیفٹی کے لیے بہتر نہیں ہے لیکن اس روز صورتحال کچھ ایسی بنی کہ ہم مشتعل مظاہرین کے درمیان گِھر گئے اور ہمیں ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔” ذاکراللہ نے بتایا۔
ذیشان کاکاخیل 92 نیوز (پشاور) کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں اور حال ہی میں ایک سیاسی پارٹی کی افتتاحی تقریب کے دوران انہیں ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ ہی عرصہ قبل پشاور کے ایک نجی شادی ہال میں پاکستان تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے والے سابق وزیراعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی قیادت میں ایک نئی سیاسی پارٹی، پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین، کی افتتاحی تقریب منتقعد ہوئی جس کو کور کرنے کے لیے وہ بھی وہاں پہنچ گئے: "ہال پہنچتے ہی اپنے موبائل فون سے فوٹیج بنانا شروع کی کہ اس دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس چند افراد نے مجھے ہال کے اندر موبائل فون استعمال کرنے سے منع کیا اور موبائل چھین کر کوریج کرنے سے روک دیا۔ ردعمل پر مذکورہ افراد نے مجھے ایونٹ سے بھی باہر نکال دیا۔” اس دن ان سمیت چند دیگر صحافیوں کے ساتھ بھی یہ برتاؤ کیا گیا تھا۔
بقول ذیشان ان کا سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر کے موبائل انہیں واپس دے دیا گیا۔ بعدازاں پشاور پریس کلب کے عہدیداروں کی مداخلت پر وہ معاملہ رفع دفع کیا گیا تاہم انہیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ آخر اس ایونٹ میں ان سمیت دیگر صحافیوں کے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھا گیا کیونکہ بطور صحافی وہ اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔
ان کے نزدیک اِس طرح کے ایونٹس میں صحافیوں کو خود بھی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم نیوز رومز کی پالیسیوں کی وجہ سے صحافی مجبور ہو کر اپنی جان خطرے میں ڈال کر خبر نکال لیتے ہیں جس میں انہیں ہراسگی کا بھی سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے ترجمان ضیاء اللہ بنگش نے بتایا کہ اس تقریب میں ان کی جماعت نے کسی بھی میڈیا ادارے کو کوریج کرنے کی دعوت نہیں دی تھی کیونکہ ان کے بقول وہ ایک ذاتی نوعیت کی تقریب تھی جبکہ مذکورہ صحافی اس تقریب میں بغیر اجازات کے کوریج کر رہے تھے اس لیے انتظامیہ نے انہیں بغیر اجازات فوٹیج بنانے سے منع کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد پشاور پریس کلب کے صدر ارشد عزیز ملک اور دیگر عہدیداروں کے ساتھ بات چیت ہوئی اور ان پر واضح کیا گیا کہ معاملہ بغیر اجازت کے کوریج کرنا تھا اور اخلاقیات کے مطابق کوئی بھی شخص کسی ایونٹ کی فوٹیج بغیر اجازت نہیں بنا سکتا۔
پشاور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عرفان موسیٰ زئی کے مطابق سیاسی اور مذہبی جماعتوں یا ان کے کارکنان کی جانب سے میڈیا ورکرز کو ہراساں کرنا اور ان پر تشدد کرنا غیرقانونی عمل ہے جبکہ پشاور پریس کلب نے ہمیشہ ایسے اقدامات کی پرزور مذمت کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پشاور پریس کلب ایک عرصہ سے مختلف ورکشاپس کا اہتمام کرتا آ رہا ہے جن میں میڈیا ورکرز کو اس حوالے سے تربیت دی جاتی رہی ہے کہ وہ سیاسی جلسوں، بم دھماکوں اور دیگر پُرخطر واقعات کی کوریج کے دوران کس طرح اپنا تحفظ یقینی بناتے ہوئے رپورٹنگ کریں گے۔
موسیٰ زئی کے مطابق اکثراوقات میڈیا ورکرز بھی بریکنگ نیوز کے چکر میں خود کو خطرات میں ڈال لیتے ہیں جس کے باعث اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں: جب بھی کسی سیاسی یا مذہبی جماعت یا کارکنان کی جانب سے کسی صحافی کو ہراساں کیا گیا ہے تو پریس کلب نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور اکثر ایسے معاملات خوش اسلوبی سے ختم کئے گئے ہیں۔
دوسری جانب اس سوال کہ صوبائی حکومت سیاسی اور مذہبی جلسوں کو کور کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے، کے جواب میں ڈائریکٹر جنرل محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا محمد عمران نے بتایا کہ صوبائی حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کی منظوری کے لیے بھی محکمہ اطلاعات کی طرف سے کوششیں جاری ہیں کیونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
انہوں نے بتایا: "ہم اب بھی تیار ہیں؛ صحافیوں کی تنظیم مذکورہ ایکٹ کی منظوری کے لیے ہم سے مشاورت کرے، اور تجاویز پیش کرے تاکہ جلد از جلد اس ایکٹ کو اسمبلی سے منظور کرایا جا سکے۔
ان کے بقول صوبائی حکومت نے صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ماضی میں بھی جرنلسٹس انڈومنٹ فنڈ رولز کی منظوری دی تھی جس کے تحت دیگر معاوضوں کے علاوہ دہشت گردی کے واقعات میں جان گنوانے والے صحافیوں کے لواحقین کو دس لاکھ جبکہ کسی بھی وجہ سے معذور ہونے والے صحافی کو دو لاکھ روپے مالی امداد دی جائے گی۔
نوٹ: یہ سٹوری پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) فیلو شپ کا حصہ ہے۔