تحصیل تنگی میں ماں اور بچے کی صحت کیلئے منی ہسپتال کا قیام، مگر سہولیات کونسی ہونگی؟
رفاقت اللہ رزڑوال
وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے چارسده کے دور آفتاده علاقہ تحصيل تنگی میں ماں اور بچے کی صحت کیلئے زچہ بچہ مرکز کے نام سے طبی مرکز کا افتتاح کیا۔ جس میں حاملہ خواتین کو ابتدائی طبی امداد، تشخیص اور زچگی کی سہولیات فراہم کی جائے گی۔ تحصیل تنگی کے عوام نے ہیلتھ کئیر سنٹر کے افتتاح کو خوش آئند قرار دے کر مطالبہ کیا ہے کہ تحصیل تنگی لاکھوں آبادی پر مشتمل علاقہ ہے لہذا سنٹر میں فوری طور پر ڈاکٹرز، دیگر عملے کی تعیناتی اور سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کی تحصیل تنگی کا بیشتر حصہ دیہاتی علاقوں پر مشتمل ہے۔ جس کے قرب و جوار میں کوئی ایسا سرکاری طبی مرکز موجود نہیں جہاں پر ماں اور بچے کی صحت کے لیے کوئی تسلی بخش طبی سہولیات فراہم موجود ہو۔ تحصیل تنگی میں ایک ٹی ایچ کیو ہسپتال ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مریضوں کا رش دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ بڑے اور معیاری ہسپتال اس تحصیل سے 30 سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
تحصیل تنگی کی بیشتر خواتین دوران زچگی طبی مراکز تک پہنچنے سے پہلے پہلے کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوجاتی ہیں جس سے ماں اور بچے دونوں کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ ہیلتھ یونٹ سنٹر کے افتتاح سے علاقہ کی خواتین کی زچگی کے مسائل میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے جس سے نہ صرف عوام کے پیسے کم خرچ ہونگے بلکہ وقت کی بچت بھی ہوگی۔
مدر اینڈ چلڈرن ہیلتھ یونٹ سنٹر کے افتتاح کے بعد تحصیل تنگی ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر واسع اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ آج ہی سے سنٹر کو فعال کر دیا گیا۔ جہاں پر حاملہ خواتین کیلئے ریکوری روم، لیبر روم، فیملی پلاننگ، ایل ایچ وی اور ڈاکٹرز کیلئے الگ دفاتر ہونگے جبکہ الیکٹرک جنریٹر اور ایمبولینس بھی فراہم کر دی گئی ہے۔
ڈاکٹر واسع کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تعاؤن سے حکومت نے ایک کروڑ روپے کی لاگت سے پورا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ سہولیات مثلاً فارمیسی، ایکسرے روم اور لیبارٹری ابھی نہیں ہے جو جلد فراہم کردی جائے گی۔
ڈاکٹر واسع نے بتایا کہ مذکورہ ہسپتال می خصوصی سٹاف تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایک پراجیکٹ جس کی تکمیل ہوچکی ہے اب وہی سٹاف اسی ہسپتال میں تعینات کیا گیا ہے جبکہ ایک گائنی ڈاکٹر ٹی ایچ کیو ہسپتال سے تعینات کر دی گئی ہے جہاں پر وہ ممکنہ طور پر روزانہ 130 سے 150 تک گائنی کی مریضوں کی تشخیص کرسکیں گی۔
انہوں نے بتایا "ہماری کوشش ہوگی ہے کہ اس سنٹر کو ایک ہستپال کی شکل دے دی جائے جس کیلئے 24 گھنٹے کیلئے کم از کم پانچ گائنی ڈاکٹرز اور اسکے ساتھ دیگر عملے کی ضرورت ہوگی اور اس کی یقین دہانی وزیرصحت نے کی ہے۔”
تحصیل تنگی کے عوام نے وفاقی وزیر اور محکمہ صحت کے اس اقدام کو قابل ستائش قرار دے کر کہا کہ چونکہ تحصیل تنگی کے عوام بنیادی طور پر غریب اور بے بس ہے تو اس ہسپتال کے قیام سے انکو صحت کی سہولیات مل جائیں گی۔
مقامی صحافی ریاض الحق نے ٹی این این کو بتایا کہ اس سے پہلے زچگی کی حامل خواتین ٹی ایچ کیو میں علاج معالجے کے لئے جاتی تھی جہاں پر ایک چھوٹا سا یونٹ قائم کیا گیا تھا لیکن مخصوص سہولیات کا فقدان تھا اب اس یونٹ کے قیام سے ممکنہ طور پر ان کے مسائل میں کمی ہوگی۔
انہوں نے کہا تحصیل تنگی کی آبادی تقریباً 6 سے 7 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ نہ صرف اس آبادی کا بوجھ ٹی ایچ کیو پر ہے بلکہ تنگی سے متصل علاقہ ضلع مہمند کے پڑانگ غار کے مریض بھی علاج معالجے کیلئے اسی ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہسپتال پر بوجھ پڑنے سے مقامی آبادی بھی معیاری علاج کی سہولیات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ریاض کے مطابق "تنگی کے عوام اس منی ہسپتال کے بارے میں خوش ہیں مگر یہاں پر عوام دیگر مختلف بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں جس میں کینسر، ہیپاٹائٹس، گردوں اور دل کی بیماریاں شامل ہیں۔ باقی بیماریوں کے علاج کی سہولیات یہاں نہیں ہے جس کو پورا کرنے کی یقین دہانی وفاقی وزیر نے کرائی ہے مگر یہ ایک چیلنج ہوگا "۔
ادارہ شماریات کے مطابق ضلع چارسدہ کی پوری آبادی تقریباً 18 لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ہیں جس میں 49 فیصد آبادی خواتین کی ہے۔ مگر ماں اور بچے کی صحت کیلئے صرف ایک بڑا ہسپتال ہے۔ علاقہ مکینوں نے وفاقی وزیر سے مطالبہ کیا ہے کہ ضلع چارسدہ کے ہر تحصیل میں خواتین کیلئے مخصوص ہسپتال کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ عوام کو طبی سہولیات انکے دہلیز پر مل سکیں۔