دہشتگردی کے واقعات میں خواتین کے نام پر موبائل سمز استعمال کیے جانے کا انکشاف
آفتاب مہمند
خیبر پختونخوا میں بھتہ خوری میں استعمال ہونے والے پاکستانی سمز میں سے زیادہ تر موبائل سمز خواتین کے نام پر رجسٹرڈ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی خیبر پختونخوا نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان نمبرز کے بارے میں تحقیق پر یہ معلوم ہوا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا اس جیسی دیگر سرکاری سکیموں کے لیے خواتین سے انگوٹھے لگوا کر سمز نکلوائی جاتی ہیں جن کو بعد ازاں مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی خیبر پختونخوا کے مطابق زیادہ تر کم تعلیم یافتہ دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے نام پر سمز نکلوائی جاتی ہیں جن میں اکثریتی خواتین کا تعلق صوبہ پنجاب و سندھ سے بتایا جارہا ہے۔
ایسے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں جن میں خواتین کو علم بھی نہیں ہوتا کہ ان کے نام پر جاری کی جانے والی سمز بھتے یا دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے حکام کے مطابق کچھ کیسز ابھی زیر تفتیش بھی ہیں۔ اس نوعیت کے کیسز کے بارے میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی اور ایف آئی اے کو آگاہ کر دیا گیا ہے جبکہ نادرا حکام سے بھی ایسے شناختی کارڈز کو بلاک کرنے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اس ضمن میں عوام اور بالخصوص خواتین کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی بارے میں رابطہ کرنے پر سابق ایڈیشنل آئی جی خیبر پختونخوا پولیس و سیکرٹری ہوم سید اختر علی شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے پنجاب، سندھ کے خواتین سے دھوکہ دہی کرکے ان سے شناختی کارڈ کی کاپیاں لیکر ان سے انگوٹھے لگوا کر بعد ازاں ان سموں ہی کو بھتہ خوری جیسے دہشتگردانہ کارروائیوں کیلئے استعمال کیا گیا بلکہ اس کے علاوہ بھی ان جیسے ناخواندہ خواتین کو دھوکہ دیکر مختلف غیر سرکاری اداروں نے بھی ان سے شناختی کارڈز لیکر سموں کو رجسٹرڈ کرکے سادہ لوح عوام سے مختلف طریقوں سے پیسے بٹورنے کیلئے استعمال کیا گیا۔
سید اختر علی شاہ نے بتایا کہ ان کا اپنا ای میل آئی ڈی کو بھی ہیک کیا گیا ہے جس کیلئے انہوں نے متعلقہ حکام کو آگاہ کر دیا ہے۔ ان کی نظر میں ملٹی نیشنل کمپنیز سموں کو رجسٹرڈ کرنے یا اس پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے ذمہ دار نہیں۔ یہاں جو لوگ فرنچائز چلاتے ہیں یا دوکاندار ہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کو بھی پابند بنانا ہوگا تاکہ کوئی بھی سم کوئی بھی بندہ غیر قانونی طریقے سے رجسٹرڈ نہ کر سکے۔
سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ موبائل سموں کے استعمال اور خرید و فرخت کیلئے ملکی اداروں نے باقاعدہ ایک مکینزم بنانا ہوگا جیساکہ ماضی میں لوگوں نے اس کا غلط طور پر استعمال کرکے کئی طرح کے ناجائز فوائد حاصل کئے۔ غلط استعمال کرنے کی صورت میں چند افراد کو ایسی سزائیں دینی چاہییے تاکہ مستقبل کیلئے وہ ایک مثال بن جائے۔
یاد رہے کہ دہشتگردی و بھتہ خوری کی روک تھام کیلئے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرح محکمہ انسداد دہشتگردی خیبر پختونخوا بھی سرگرم عمل ہے۔
رواں برس خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے اب تک 850 سے زیادہ کیسز رجسٹر ہو چکے ہیں۔ دو ہزار کے قریب مطلوب دہشت گردوں کی ایک فہرست بنائی گئی ہے اور 600 سے زیادہ مبینہ ملزم گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ رواں سال اب تک 216 دہشت گرد مختلف کارروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں اور 50 دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزا بھی ہوئی ہے۔