رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ہم کونسی معلومات حاصل کرسکتے ہیں؟
تحریر :رعناز
کچھ دنوں پہلے میں ایک ارگنائزیشن سی جی پی اے کی ٹریننگ لے رہی تھی جو کہ نوجوانوں کے لیے تھا۔ اس ٹریننگ میں میں نے ٹرینر کے منہ سے ایک لفظ سنا جو تھا رائٹ ٹو انفارمیشن۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کے ہر ایک شہری کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی سرکاری معلومات حاصل کر سکتے ہیں سوائے ملک میں ائینی تحفظ رکھنے والے چند اداروں کے۔ یہ جملہ سن کر میں کافی حیران ہو گئی کہ کیا واقعی میں ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم کسی بھی ادارے سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے حق کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں؟
اپنے تجسس کو کم کرنے کے لیے میں نے ٹرینر سے سوال کیا آپ ہمیں رائٹ ٹو انفارمیشن کے حوالے سے اور بھی معلومات فراہم کرے تاکہ ہم بھی اپنے حق کے بارے میں پوچھ سکے۔ میرے سوال کے جواب میں انہوں نے مجھے مزیدرہنمائی دی۔
معلومات تک رسائی یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت ہم اپنے ملک کے کسی بھی ادارے سے ان کے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ہمیں معلومات فراہم کرے کیونکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 130 ممالک میں ہوتا ہے جہاں معلومات تک رسائی کا قانون موجود ہے۔
آئیے میں آپ کے سامنے کچھ مثالیں پیش کرتی ہوں کہ ہم کون کون سی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ جاننا ہمارا حق ہے ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ہمارے ادا کردہ ٹیکس سے ملک میں کتنے کام ہو رہے ہیں ؟ کتنے اور کون سے منصوبے چل رہے ہیں؟ اسی طرح اگر ہم نے کسی گورنمنٹ ادارے میں نوکری کے لیے ٹیسٹ دیا ہے اور ہمیں اپنے آپ پر بھروسہ ہو کے ہم نے ٹیسٹ اچھا دیا ہے اور نوکری کسی اور کو مل جاتی ہے تو ہم متعلقہ ادارے سے میرٹ لسٹ طلب کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم کسی ادارے یا سرکاری افسر کے خلاف شکایت کرتے ہیں کہ ان کی کارکردگی اچھی نہیں ہے اور ہمارے اس شکایت پر کوئی عمل درامد نہیں ہوتا تو ہم اس کے بارے میں بھی پوچھ سکتے ہیں کہ ان افسران کے خلاف کیا کوئی کاروائی ہوئی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کی ترقیاتی کاموں کے لیے کتنا بجٹ مختص ہوا تھا اور اس میں کتنا خرچ ہوا ہے؟
سادہ الفاظ میں ہم بطور شہری ہر اس چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں جس پر ہمارے ٹیکس کا پیسہ لگا ہوا ہے یا لگ رہا ہے۔ یقینا اپ کے ذہن میں ابھی یہی سوال اٹھے گا کہ ہم یہ معلومات کیسے حاصل کر سکتے ہیں ؟ اس کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟تو آئیے چلتے ہیں اس طریقے کی طرف جس کے ذریعے ہم کسی ادارے سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
اس کا طریقہ بہت ہی آسان ہے ۔شہری کو صرف ایک سادہ کاغذ پر متعلقہ ادارے کو درخواست لکھنا ہوتی ہے جس میں یہ واضح کرنا پڑتا ہے کہ ہمیں کس قسم کی معلومات چاہیے۔ متعلقہ ادارہ یا افسر 10 سے 20 دن میں شہری کو جواب دے دے گا کیونکہ وہ اس بات کے پابند ہے۔ اگر اس کے بعد بھی معلومات نہ دے تو پھر شہری کو انفارمیشن کمیشن سے رجوع کرنا ہوگا تاکہ وہ اس شہری کو معلومات دینے میں مدد کرے۔ شہری کو درخواست میں اپنا نام، پتہ، شناختی کارڈ نمبر، موبائل نمبر یا ای میل ایڈریس وغیرہ لکھنا ہوتا ہے جس کے ذریعے اسے اپنے سوال کا جواب ملے گا۔
یہاں پر میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہوں گی کہ کچھ ایسی چیزیں ہیں جس کے بارے میں شہری معلومات حاصل نہیں کر سکتے جیسے کہ کسی شہری کی ذاتی معلومات جس سے کسی شہری کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا قومی سلامتی سے متعلق معلومات بھی ہم حاصل نہیں کر سکتے۔
لہذا ہم سب شہریوں کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ معلومات تک رسائی کا قانون یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن ہم شہریوں کے لیے ہی بنا ہے اس لیے ہمیں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا چاہیے اور اپنے حق کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔
رعنازکپس کالج مردان کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔