ڈالر کی اڑان سے جو مہنگائی آئی تھی وہ اب ڈالر کی کمی سے کیوں کم نہیں ہو رہی؟
کیف آفریدی
ہم روز اس طرح کی خبریں سنتے اور دیکھتے ہیں کہ نگران حکومت او عسکری قیادت کی کوشیشوں سے ڈالر کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائی ہو رہی ہے جس سے ڈالر کی قیمت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے اور پاکستانی روپیہ مستحکم ہوتا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود مہنگائی ویسی کی ویسی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے کئی دنوں سے ڈالر جو اوپن مارکیٹ میں 335 کا تھا آج 278 تک آگیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ حکومت غیر رجسٹرڈ حوالہ، ہنڈی کے کاروبار والوں کے خلاف بھی چھاپے مار رہے ہیں۔ آج کے دن بھی انٹر بینک میں ڈالر 1 روپے 1 پیسے سستا ہونے کے بعد 278 روپے 50 پیسے کا ہو گیا۔ اسی طرح اوپن مارکیٹ میں ڈالر 1 روپے سستا ہو کر 278 روپے تک آگیا۔
اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ ڈالر کی اڑان سے جو مہنگائی آئی تھی وہ اب ڈالر کی کمی سے کیوں کم نہیں ہو رہی؟
اس حوالے سے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد شاہد نے بتایا کہ عام طور پر جب درآمداد کم ہو جائے او برآمداد بڑھ جائے تو اس سے روپیہ مستحکم ہوتا ہے اور اس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ تاہم اس وقت پاکستان میں اس قسم کی صورتحال نہیں ہے کہ ہماری درآمداد کم ہو گئی ہے اور برآمداد بڑھ گئی ہے۔ ہاں یہ فیکٹر ضرور ہے کہ جو ڈالر کی سمگلنگ میں ملوث تھے انکے خلاف حکومت نے گھیرا تنگ کیا ہے۔ جو افغانستان کی طرف ڈالر سمگل ہو رہے تھے انکی روک تھام ہو رہی ہے جس سے پاکستان میں ڈالر کی قدر کم ہوئی اور روپیہ مستحکم ہو گیا۔
اب اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے کہ جس طرح ڈالر بڑھ رہا تھا تو اس سے چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی تھی اور اب جب ڈالر نیچے آگیا تو ان چیزوں کی قیتمیں بھی کم ہونی چاہئے تھی پر اکانومی میں ایک تھیوری ہے جیسے "دی پرائسس آر ریجرڈ ڈاون ورلڈ” کہتے ہیں۔ یعنی ڈالر کی قیمت بڑھ جانے سے جس رفتار سے اشیا کی قیمتیں اوپر گئی ہیں اور اسکے بعد بے شک اگر حالات اچھے ہو بھی اور ڈالر نیچے آجائے تو وہ قیتمیں اتنی جلدی نیچے نہیں آتی اور لچک دار نہیں ہوتی۔ سادہ الفاظ میں اگر کسی دکاندار نے مہنگی چیزیں خریدی ہیں تو وہ کیسے اتنی جلدی سستے داموں پو بیچے گا۔
مثال کے طور پر اگر دوائیوں کی بات کی جائے تو ڈالر کی قدر بڑھ جانے سے دوائیوں کی قیمتی بھی بڑھ گئی اب جب مارکیٹ میں وہ دوائیاں آئی ہیں اور انکی قیمتیں بھی پرنٹیڈ ہیں تو وہ اتنی جلدی سستی نہیں ہوتی اور نہ وہ اس کی قیمتیں واپس کم کر سکتے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں مینیو کاسٹ۔ اس لیے ڈالر کی قیمت کم ہونے پر اشیا خوردنوش کے نرخ پر اثرات اہستہ آہستہ پڑیں گے۔
سبزی، فروٹ وغیرہ ان پر ڈالر کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ یہ ڈومیسٹک چیزیں ہیں۔ ان اشیا کی چیزیں تب کم ہونا شروع ہو گی جب اسکی سپلائی بڑھ جائی گی۔ تو اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک ان چیزوں کی سپلائی زیادہ نہیں ہوگی قیتمیں نیچے کرنا مشکل ہو گا اور وہ چیزیں جو انرجی ہیں یا ٹرانسپورٹ جسکا لنک ڈالر کے ساتھ ہے تو ان چیزوں کی قیمتیں ضرور نیچے آنی چاہیے۔