خیبر پختونخوا میں خواتین پولیس کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم، وجوہات کیا ہیں؟
ریحان محمد
سنٹرل کرم کی رہائشی زاہد نساء مقامی جرگوں کے اس فیصلے کے انتظار میں تھیں جس میں وہ شوہر سے طلاق لیکر دوسری جگہ شادی کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں کیونکہ ان کے بقول ان کے شوہر نے دس سال پہلے دوسری شادی کرلی اور نساء کو اپنے والد کے گھر بھیج دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی پولیس کو کئی بار اس حوالے سے درخواستیں بھیج دی گئی لیکن مرد پولیس ہونے کی وجہ سے ابھی تک میں خود ان سے نہیں ملی ہوں اور نہ ہی انہوں نے خود سے میرے مسئلے پر صحیح طریقے سے غور کیا ہے۔
سال 2020 میں قبائلی تاریخ میں پہلی بار ضلع کرم پاڑہ چنار میں ویمن پولیس ڈسک کا قیام ہوا تھا جس میں خواتین اپنے مسائل کے حل کے لئے آتی تھیں۔ پولیس کے مطابق اس ڈسک میں اب تک 72 خواتین نے اپنے شکایات درج کرائے ہیں جس میں 70 کیسز حل بھی ہوچکے ہیں، ان میں زیادہ تر غگ، خواتین پر تشدد اور جائیداد کے تنازعے شامل تھے، لیکن ضلع کرم میں خواتین پولیس کی کمی کی وجہ سے اس ڈسک کو چلانے کے لئے مستقل خواتین پولیس نہ ہونے کی وجہ سے اکثر یہ بند رہتا تھا تاہم رواں سال 2023 ستمبر کو تاریخ میں پہلی بار پولیس خاتون کانسٹیبل سمرین عامر کو ایڈشنل ایس ایچ او تعینات کردیا جو اب تھانہ پاڑہ چنار میں خواتین رپورٹنگ سنٹر میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں۔
ایڈشنل ایس ایچ او سمرین عامر کا کہنا ہے کہ ضلع کرم میں خواتین پولیس کی کمی اور کام زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر خواتین پولیس اہلکار دوسرے جگہوں پر کام کرنے کے سلسلے میں جاتے ہیں جبکہ خواتین رپورٹنگ سنٹر میں بھی پانی کی کمی، واش روم سمیت دیگر مسائل کے بناء پر خواتین رپورٹنگ سنٹر اکثر بند رہتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ضلع کرم میں خواتین کے مسائل بہت زیادہ ہیں جس کو حل کرنا مرد پولیس کے لئے مشکل ہوتا ہے، یہاں پر بہت سے خواتین اپنے مسائل کو مرد پولیس کے سامنے بیان نہیں کرسکتے لیکن بدقسمتی سے قبائلی اضلاع میں خواتین پولیس کی تعداد بہت کم ہیں لیکن ان کی مسائل کے حل کے لئے خواتین پولیس کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔
ضلع کرم کی چیئرپرسن کمیٹی برائے وقار نسواء نائلہ الطاف کا کہنا ہے کہ ہزاروں خواتین کو گھریلو مسائل کا سامنا ہے لیکن خواتین پولیس کی کمی اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی جہنم میں گزر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سخت قبائلی روایات کی وجہ سے ایک خاتون کو پولیس تھانے میں رپورٹ درج کرنا سوچ بھی نہیں سکتی جبکہ پاڑہ چنار اور صدہ میں خواتین پولیس کے ساتھ رپورٹ درج کرنے کے لئے کئی گھنٹوں کا طویل راستہ طے کرنا ان قبائلی خواتین کے لئے ناممکن ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ضلع کرم محمد عمران کا کہنا ہے کہ خواتین کو مرد پولیس آفیسرز کے سامنے اپنے بیانات اور دیگر مسائل بیان کرنے میں نہ صرف مشکلات درپیش ہوتی ہے بلکہ قبائلی رسم و رواج ہونے کی ناطے سے خواتین کو ہچکچاہٹ کا سامنا بھی ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے مسائل کے حل کے لئے پولیس بھی قوی کوشش کررہی ہے اس لئے ضلع کرم میں ایڈشنل ایس ایچ او کی تعیناتی بھی کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے صرف رپورٹنگ سنٹر تھا لیکن اب ایس ایچ او کی تعیناتی کے بعد یہاں پر تھانے کے طرح کام کیا جاتا ہے۔
پاڑہ چنار کی رہائشی 35 سالہ حاجرہ پرائیوٹ سکول میں ٹیچنگ کے بعد بازار میں اپنی شادی کے لئے ضروری سامان خرید رہی ہے کیونکہ آئندہ ماہ اس کی شادی ہونی والی ہے، انہوں نے اپنی شادی کے لئے طویل انتظار کیا ہے۔ حاجرہ کا کہنا ہے کہ قبائلی رویات غگ کی وجہ سے وہ شادی نہیں کرسکتی تھی لیکن اب خواتین پولیس ڈسک میں درخواست دینے کے بعد پولیس نے غگ کرنے والوں کو میرے رشتہ دار سے صلح کرایا ہے اور اب اس نے پولیس کی مدد سے مجھے غگ سے آزاد کیا ہے، اس لئے شاید ضلع کرم کے میں ہی لڑکی ہو جس کی اتنی زیادہ عمر میں شادی ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے انہوں نے پاڑہ چنار میں خواتین پولیس کو اپنے رشتہ دار سے غگ سے آزادی کے درخواست دی تھی جس پر اس وقت کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اور خواتین پولیس نے غگ کرنے والے سے رضا کارانہ طور پر سٹامپ پیپر پر مجھے شادی کرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن دو سالوں سے میرا رشتہ نہیں آیا تھا لیکن اس سال مارچ میں میرا رشتہ طے ہوا اب اگلے ماہ میری شادی ہورہی ہے جس دن کی انتظار میں میری زندگی گزر رہی تھی۔
محکمہ پولیس خیبر پختونخوا کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ 19 ہزار مرد پولیس اور 11 ہزار پانچ خواتین پولیس موجود ہیں۔ جس میں قبائلی اضلاع کے 30 خواتین پولیس ہیں۔ اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس جینڈر ایکولٹی انیلہ ناز خیبر پختونخوا میں خواتین پولیس کی ٹریننگز اور خواتین کے مسائل کو دیکھنے کے ساتھ صوبے میں خواتین کو پولیس میں آنے کے شعور بیداری پر بھی کام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا معاشرے میں امن و امان رواداری اور بھائی چارے کو قائم رکھنے کے لئے خواتین پولیس کا بہت اہم کردار ہے لیکن بدقسمتی سے صوبہ بھر میں یہ تعداد بہت کم ہے جو خواتین کے مسائل کو کم کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنشنل رولز کے مطابق ہر جگہ پولیس میں دس فیصد خواتین کا ہونا لازمی ہے لیکن بدقسمتی سے خیبر پختونخوا میں یہ تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پختون معاشرے میں خواتین کا پولیس میں نوکری کرنے کا رحجان بہت کم ہے اس وجہ سے بھی خواتین کا پولیس میں تعداد کم ہے۔
محکمہ پولیس خیبر پختونخوا کے مطابق قبائلی اضلاع میں 25 ہزار 879 مرد پولیس اہلکاروں میں سے صرف 30 خواتین پولیس اہلکار ہیں۔ جس کے مطابق ضلع خیبر میں دو، مہمند میں چھ، کرم میں 14، شمالی وزیر ستان میں سات اور جنوبی وزیرستان میں ایک، جبکہ باجوڑ اور اورکزئی سمیت چھ ایف آر ریجنز میں کوئی خاتون پولیس اہلکار موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اب نو مزید خواتین کو بھرتی کرنے کا عمل جاری ہے۔
سمرین عامر کی ایڈشنل ایس ایج او کی تعیناتی پاڑہ چنار پولیس تھانے میں ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ اس کو خواتین پولیس رپورٹنگ سنٹر کی اضافی چارج بھی دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دونوں جگہوں پر ڈیوٹی کرتی ہے اور پوری کرم میں جہاں پر بھی خواتین پولیس کی ضرورت پڑ جائے تو وہاں جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین پولیس کا کام بہت زیادہ ہے لیکن پولیس اہلکار بہت کم ہے۔ کیونکہ پولیس کی کمی کی وجہ سےتقریبات، بازاروں اور دیگر جگہوں پر ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔
اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس ضم اضلاع ڈاکٹر قریش خان کا کہنا ہے کہ 2018 میں قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد وہ ضلع کرم ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر تعینات ہوئے تو لوگوں کو معلوم ہونا شروع ہوا کہ ایف سی آر قانون کے خاتمے کے بعد ان کے زیادہ تر مسائل اب پولیس ہی حل کرسکتے ہیں اور خواتین کا پولیس کے ذریعے مسائل کے حل کے لئے پولیس سٹیشنوں کو آنا شروع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں خواتین کا گھر سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن بھر بھی ان کو پولیس کے ذریعے اپنے مسائل کے حل ہونے کے لئے امید تھی اور روزانہ کے بنیاد پر پولیس اسٹیشن خواتین آرہی تھی جن کے لئے انہوں نے الگ خواتین ڈسک بنائی جس میں پھر وہ آزادانہ طریقے سے اپنے مسائل کے حل کے لئے آتی تھی۔
ضم اضلاع کے علاوہ خیبر پختونخوا میں پولیس سٹیشنوں میں خواتین کے مسائل کے حل کے لئے الگ 60 خواتین رپورٹنگ سنٹر یا خواتین پولیس ڈسک موجود ہیں جس سب سے زیادہ مردان میں 6 جبکہ پشاور، چارسدہ، صوابی، بونیر، چترال لوئر، ہنگو اور مانسہرہ میں پانچ پانچ خواتین پولیس رپورٹنگ سنٹرز، ایبٹ آباد میں چار، شانگلہ میں 3، بٹہ گرام میں 2 جبکہ نوشہرہ، ڈی آئی خان، ٹانک، بنوں، اپر جترال، کوہاٹ اور قبائلی ضلع کرم میں ایک ایک خواتین پولیس سنٹر قائم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پشاور میں دو خواتین پولیس تھانے بھی موجود ہے۔
سمرین عامر کا کہنا ہے کہ ضلع کرم کے زیادہ تر خواتین کی کیسز گھریلو تشدد، کم عمری میں شادی اور غگ کی ہوتی ہے لیکن یہاں پر صرف قریبی علاقوں کے خواتین اپنی کیسز کو رجسٹرڈ کرنے کے لئے آتی ہیں باقی دور دراز کے علاقوں سے خواتین کو یہاں آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
محکمہ سماجی بہبود ضلع کرم جنڈر ڈسک آفیسر شاداب حسین، جو خواتین کی مسائل اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ضلع کرم میں خواتین کے بہت سے ایسے مسائل ہیں جو ایک مرد پولیس حل نہیں کرسکتا یا ایسے تنازاعات ہوتے ہیں جس کو حل کے لئے خواتین پولیس کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ضلع کرم میں خواتین پولیس رپورٹنگ سنٹر قائم ہونے سے بہت خواتین کے لئے ایک امید کی کرن تھی لیکن کرم میں دیگر جگہوں میں خواتین پولیس کی کمی کی وجہ سے خواتین پولیس سنٹر میں پولیس اہلکار بہت کم موجود ہوتے تھے جس کے لئے مزید خواتین کو بھرتی کرنا اور ایڈیشنل ایس ایج او کی تعیناتی بہت پہلی ضرورت تھی لیکن اب تعیناتی ہونا بھی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہے۔
تھانہ پاڑہ چنار میں خاتون محرر صوفیہ مسیح کا کہنا ہے کہ یہاں پر خواتین کے بہت سے مسائل کے ساتھ وہ ضلع بھر میں مختلف جگہوں پر ڈیوٹی سرانجام دیتی ہے۔ ضلع میں مذہبی تہوار، بازاروں اور دیگر جگہوں پر بھی ڈیوٹی کے لئے جاتی ہیں کیونکہ یہاں پر خواتین پولیس کی کمی کی وجہ سے ہر جگہ پر جانا پڑتا ہے، جبکہ مردوں کے طرح خواتین کے بھی مسائل موجود ہیں لیکن ان کے لئے پولیس کا کم ہونے کی وجہ سے ان کو مختلف جگہوں پر مجبوراً ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔
اسیسٹنٹ ایڈشنل جنرل ضم اضلاع پولیس قریش خان کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں انضمام ہونے سے پہلے پولیس میں خواتین کو بغیر ٹریننگ کی بھرتی کی جاتی جس میں بعد میں بہت سے مسئلے پیدا ہوتے لیکن اب پولیس میں خواتین کے آنے کے لئے اب کام ہورہا ہے اور جلد کوالیفائیڈ خواتین کو بھرتی کیا جائے گا۔ جس کے لئے خواتین پہلے ٹیسٹ دینے کے بعد ٹریننگ لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کانسٹیبل میں بھرتی کے لئے مرد اور خواتین کو میٹرک تک تعلیم لازمی ہے لیکن اب پولیس میں خواتین کی تعداد بڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کی خاطر خواتین کانسٹیبل کے لئے میٹرک سے بھی کم تعلیم کی شرط کے لئے پالسی بنانے پر غور کیا جارہا ہے۔
ڈی پی او ضلع کرم عمران کا کہنا ہے کہ ضلع کرم میں خواتین پولیس کی تعداد کی کمی کو پورا کرنا اور ان کی مسائل کے حل کے لئے کوششیں کررہے ہیں لیکن اس میں وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ضلع پاڑہ چنار میں خاتون ایس ایچ او کی تعیناتی ہوئی اس طرح کرم کے دیگر حصوں میں بھی خواتین پولیس کی تعیناتی کا عمل ہوگا۔
اے آئی جی جینڈر ایکولٹی انیلا ناز کا کہنا تھا کہ اب محکمہ پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر خواتین کے تعیناتی کے بعد اس ان کی نیچلی سطح پر تعداد بڑھنے کا رحجان پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ مرد کے ساتھ کام کرنے کے بجائے ان کو خواتین کے ساتھ کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن فیلوشپ کا حصہ ہے۔