غریب آدمی گھر کا کرایہ دے گا یا بجلی کا بل؟
محمد سلمان
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف) سے کامیاب مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدہ کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ اب تک تو بجلی صارفین کو صرف خبروں کی حد تک ہی جھٹکے ملتے رہیں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں لیکن یہ جھٹکے حقیقت میں اس وقت بدل گئے جب بجلی صارفین کو ماہ جولائی کے بل موصول ہونا شروع ہو گئے۔
ماہ جولائی میں بجلی کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ اس نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی اکثریت اس خوش فہمی میں تھی کہ جون کے مقابلے میں جولائی میں یونٹس کم استعمال ہوئے ہیں لہذا بل میں خاطرخواہ کمی واقع ہو گی لیکن یہ ان کی خیام خیالی ہی ثابت ہوئی۔ اب بات کم یونٹس استعمال کرنے کی نہیں کیونکہ بجلی فی یونٹ اس حد تک جا پہنچی ہے کہ کم یونٹس استعمال کرنے والے بھی بھاری بھرکم بل سے نہیں بچ سکیں گے۔
یہاں بڑے گھروں کی نہیں صرف اگر 5 سے 6 مرلے مکان کی بات کی جائے تو ان کا بل 50 ہزار سے 60 ہزار کے درمیان آیا ہے ان بلوں میں جنرل سیل ٹیکس، انکم ٹیکس محصول بجلی، ایف پی اے اور ٹی وی فیس جیسے عوامل نے عوام کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔
پشاور کے رہائشی سکندر ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ ان کے مطابق جولائی میں ان کا بل 14 ہزار 582 روپے آیا ہے، سمجھ نہیں آریا کہ بل کے پیسے کیسے جمع کروں، کچھ روز قبل گھر کے لیے ایک استعمال شدہ فریج خریدا ہے اب سوچ رہا ہوں اسے دوبارہ بھیج دوں۔
سکندر کے بقول ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان جیسے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے جبکہ اگر ان کا مالی حالت تھوڑے بہت بہتر ہوتا تو وہ مہنگائی کے ہاتھوں کب کا یہ ملک چھوڑ چکا ہوتا۔
حاجی محمد پیشے کے اعتبار سے موچی ہیں۔ 351 یونٹ استعمال کرنے پر ان کا بل 14 ہزار 730 روپے آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دو تین ماہ کے بلوں سے اندازہ ہوگیا ہے کہ اب وہ 4 یا 5 ہزار روپے والے بلوں کا چیپٹر بند ہو گیا ہے، بے تحاشہ ٹیکسز کی وجہ عام گھر کا بل بھی 10 ہزار سے کم نہیں آتا۔
حاجی محمد پریشان ہیں اور کہتے ہیں کہ کل ہی کی خبر ہے کہ بجلی مزید 4 روپے فی یونٹ مہنگی کی جا رہی ہے جبکہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر لوگ کیا کریں گے، ایک غریب آدمی گھر کا کرایہ دے گا یا بجلی کا بل؟