اے ڈی آر جرگہ: مشکل وقت میں بھائی چارے کی صدا یا عدالتی نظام سے بے زاری؟
سعید بادشاہ مہمند
ضلع مہمند میں رسم و رواج کے تحت راضی ناموں کا سلسلہ چل پڑا اور اس سلسلے میں مہمند میں قبائلی جرگوں نے تین ہفتوں میں تین خونی دشمنیوں کا خاتمہ کرلیا۔
اس سسلے میں چند روز قبل شیر اعظم خان اور فریق دوم زیور شاہ کے درمیان دشمنی بھی ختم کر دی گئی۔ شیر اعظم خان نے کہا کہ کہ 22 ماہ پہلے ہمارے چچا زاد بھائی فریق اول خائستہ میر ولد حاجی خائستہ گل خاندان کا قریبی گاؤں میں فریق دوم زیور شاہ اور زین شاہ کے خاندان کے ساتھ جائیداد کا تنازعہ پیدا ہوا۔ ایک دن فریقین کے درمیان جھگڑے میں فائرنگ ہوئی جس میں فریق اول سے دو افراد رسول خان اور ایک بیٹا مارا گیا اور فریق دوم کا زیور شاہ بھی جوابی فائرنگ سے موقع پر قتل ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اچانک دشمنی پیدا ہونے سے دو سال تک دونوں خاندانوں کی زندگی پر بہت منفی اثرات پڑے۔ بچوں کا تعلیمی اور بڑوں کے روزگار کا سلسلہ رک گیا۔ دشمنی میں دونوں فریقوں کو جانی نقصان کے ساتھ مالی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا تھا۔ انہوں نے قومی مشران کا شکریہ ادا کیا کہ خلوص نیت کے ساتھ فریقین کی منت سماجت کی اور دشمنی کے خاتمے پر رضا مند کرلیا۔
شیر اعظم خان کے مطابق عدالتوں میں تنازعات برسوں چلتے ہیں جس پر فریقین کے لاکھوں روپے بھی خرچ ہو جاتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس جرگہ نظام اور رسم و رواج کے واک اختیار کے تحت اس کا جلد حل نکل آتا ہے۔
تین افراد قتل کے اس خونی دشمنی کے خاتمے میں ایک مقامی ملک زر باچا نے فعال کردار ادا کیا۔ وہ صوبائی حکومت کی جانب سے ضم اضلاع کے تنازعات کے حل کے لئے قانونی حیثیت پانے والی Alternative Dispute Resolution System (ADRS) (اے ڈی آر) جرگہ کے ممبر بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قبائلی ضلع میں جرگہ سسٹم تو پہلے سے موجود ہے مگر انضمام کے بعد سے غیرفعال ہوکر رہ گیا تھا۔ اے ڈی آر جرگہ کو قانونی حیثیت ملنے کے بعد قومی مشران علماء کرام کے ساتھ مل کر قبائلی ضلع مہمند کے طول و عرض میں تنازعات کے حل کیلئے کوشاں ہیں۔
ضلع مہمند میں اے ڈی آر جرگے کے 52 ممبران ہیں۔ 2021 سے اب تک اے ڈی آر جرگے کو ضلع مہمند کے مختلف علاقوں میں جائیداد اورجھگڑوں کے 160 تنازعات کیس حوالہ ہوئے اور فریقین کی رضامندی سے فیصلوں کا اختیار دیا گیا ہے جس میں اکثر تنازعے حل ہوگئے ہیں جبکہ باقی کی حل میں پیشرفت ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ 3 قتل کیسز (302) دشمنیوں کے فیصلے کا اختیار بھی اے ڈی آر جرگے کو دیا گیا ہے جس میں بابی خیل دشمنی پہلا کیس ہے جو حل ہوگیا۔ انہوں نے کہا عوام کو عملی تجربہ ہوا کہ قبائلی اضلاع میں قومی جرگے بشمول اے ڈی آر تنازعات کے حل میں عدالت سے بہتر پلیٹ فارم ثابت ہوئے ہیں۔ انضمام ہوتے ہی پہلے پہل سارے تنازعات عدالتوں میں چلے گئے۔ قبائلی علاقوں کا لینڈ ریکارڈ نہ ہونے کے سبب عدالتوں میں جائیداد تنازعات طولت پکڑ جاتے ہیں اور سالوں بعد بھی فیصلے نہیں ہوتے جس سے بیزار ہوکر رسم و رواج کے حامی قبائل دوبارہ جرگوں سے رجوع کرنے لگے ہیں۔ اگر قبائلی جرگے کو حکومت کی سپورٹ حاصل رہی تو قبائلی مشران جرگہ سسٹم کے ذریعے بہت سے تنازعات خونریزی اور دشمنی پیدا ہونے سے پہلے ختم کرسکتے ہیں۔
ضلع مہمند میں گزشتہ کئی ماہ سے جرگوں کے ذریعے دشمنیوں کے راضی ناموں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران مصالحتی جرگوں نے تحصیل حلیمزئی میں فریقین خائستہ میر اور زیور شاہ خاندان کے درمیان 2 سالہ دشمنی اور فریقین گل افضل اور عابد سلطان خاندانوں کے مابین 12 سالہ دشمنیوں کا تصفیہ کرایا جبکہ تحصیل صافی میں بھی مقامی مصالحتی جرگہ ممبران فریقین ملک نبی شیخ اور میاں حوص خان خاندانوں کے 50 سالہ دشمنی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تینوں دشمنیوں میں 3 مقتولین کا خون ورثاء نے جرگوں کے احترام میں مخالفین کو معاف کردیا اور آپس میں بغلگیر ہوگئے۔
ڈپٹی کمشنر ضلع مہمند ڈاکٹر احتشام الحق نے قبائلی جرگے اور مقامی رسم و رواج کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ فاٹا کا صوبے میں انضمام سے پہلے یہاں پر جرگے اور رسم و رواج کا زبردست نظام چل رہا تھا۔ انضمام کے بعد یہ جرگہ نظام موثر نہیں رہا۔ جب اے پی اے یا پولیٹیکل ایجنٹ کے اختیارات اسسٹنٹ کمشنر کے پاس نہیں رہے تو جرگہ نظام خود بخود غیر متحرک ہوا۔ قبائلی اضلاع میں جرم و سزا کے تعین کے لئے پولیس اور عدالت آگئی ہے جبکہ لوگ چھوٹے مسائل اور گاؤں سطح کے تنازعات اب بھی مقامی جرگوں کے راضی ناموں سے حل ہو رہے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے ضلع مہمند میں پہلی بارضلعی انتظامیہ نے اے ڈی آر جرگے کے ذریعے دو خاندانوں کے مابین دشمنی کا خاتمہ کرا دیا۔ ڈاکٹر احتشام الحق نے کہا کہ شائد پاکستان کے تاریخ کا پہلا 302 کیس ہے جو قبائلی ADR جرگے کے ذریعے حل کیا گیا جس پر جرگہ ممبران کوخراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ڈی سی مہمند نے کہا کہ برسوں پرانی دشمنیوں میں خاندان کے بیس سالہ جوان کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہماری دشمنی کس وجہ سے پیدا ہوگئی تھی۔ ڈی سی مہمند نے مشران اور کشران سے اپیل کی کہ ہر مسئلے کا حل آپس کی بات چیت اور جرگے کے ذریعے نکالے۔ اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ بھر پور تعاون کرے گی۔
قبائلی مشرملک حاجی احمد خویزئی بتاتے ہیں کہ ہمیں اپنے مشران کہا کرتے تھے کہ مہمند قبائل کی دشمنیاں دو قسم کی ہوتی ہے، ایک قسم دشمنی غصّہ اور کینے کی ہوتی ہے اور دوسری قسم دشمنی لین دین، مال یا جائیداد تنازعے سے جنم لیتی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے ان دونوں اعمال پرنظر ثانی کی جائے۔ انہوں نے دشمنیوں کے خاتمے میں فریقین کی طرف سے تعاون اور کامیاب جرگے مستقبل کے لئے نیک شگون قرار دیا۔