لائف سٹائل

لاکھوں ایکڑ اراضی کمرشل پلاٹس میں تبدیل، زرعی زمینوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں میں تبدیل ہوگئیں جس سے مقامی سطح پر نہ صرف زیر کاشت زمینوں کا خاتمہ ہوا بلکہ ارد گرد کی زرعی زمینوں کی آبپاشی کا نظام بھی متاثر ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی زمینوں کو کمرشل پلاٹس میں تبدیل کرنے سے خوراک کی کمی اور درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنے گا۔

تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن حکام کے مطابق ضلع چارسدہ کے علاقہ چک نستہ میں پشاور موٹروے کے قریب حال ہی میں ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں تقریباً 500 کنال زمین پر تعمیراتی منصوبے کا آغاز کیا گیا ہے اور اب مزید ساڑھے 5 ہزار کنال زیر کاشت زمین کو اس تعمیراتی منصوبے کا حصہ بنایا جائے گا۔

چک نستہ کے رہائشی عبداللہ جان گزشتہ 50 سال سے زیر تعمیر منصوبے کے ساتھ والے گاؤں میں رہتے ہیں جہاں پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کی ہزاروں ایکڑ زمین پر آبادی کاری ہو رہی ہے۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ یہاں پر سیکڑوں کی تعداد میں لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں جن کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے مگر ان کے مطابق مذکورہ ہاوسنگ سوسائٹی سے ان کی زیر کاشت زمین کی آب پاشی کا نظام بھی تباہ ہوگیا ہے۔

عبداللہ جان کہتے ہیں کہ جس جگہ پر ہاؤسنگ سوسائٹی تعیمر کی جا رہی ہے اس کے جنوبی طرف سے دریائے سوات اور مشرق کی طرف سے دریائے جیندے بہتا ہے، جب 2010 کا سیلاب آیا تو یہاں کی پوری آبادی 5 سے 8 فٹ تک پانی میں ڈوب گئی تھی۔

‘میں اس بات کا گواہ ہوں کہ 2010 کے سیلاب میں اتنا پانی آیا تھا کہ میں خود اپنے گھر میں تیر رہا تھا۔ اس صورتحال میں خریداروں سے درخواست ہے کہ سیلابی ریلوں کی وجہ سے نہ صرف اس میں زمینیں خریدنے سے گریز کرے بلکہ اپنی زرعی زمینوں کو بھی تحفظ فراہم کرنے میں کردار ادا کرے۔’

ان کے بقول مستقبل میں بھی خدشہ ہے کہ نہ صرف اس منصوبے کی تعمیرات زیر آب آئیں گی بلکہ ہماری آبادی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری زرعی زمینوں کی تحفظ اور آبادی کو مزید نقصان سے بچانے کیلئے ہم نے ڈپٹی کمشنر چارسدہ، ڈی پی او چارسدہ، ٹی ایم اے اور نیشنل ہاویز اتھارٹی کو درخواستیں بھی دی ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

چک نستہ کے رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ حالیہ دنوں میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مالکان نے تقریباً 60 ہزار کنال زرعی زمین پر آبادکاری شروع کر رکھی ہے جس سے خوراکی اشیاء کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ چک نستہ کے 30 سالہ توصیف اللہ کہتے ہیں کہ ان زمینوں پر سبزیاں، گنا، غلہ اور اناج اگانے سے پورا ضلع مستفید ہو جاتا تھا مگر اب زرعی زمینوں پر رہائشی منصوبوں سے یہی وسائل ختم ہو رہے ہیں۔

توصیف اللہ کا کہنا ہے کہ میرا مشاہدہ ہے کہ ایک ایکڑ زمین کم از کم 40 من گندم، 40 من گنے کی فصل پیدا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ زمینیں پھل اور سبزیوں کی پیداوار کیلئے بھی موزوں سمجھی جاتے ہیں تاہم اب 60 ہزار کنال سے ساڑھے 7 ہزار ایکڑ زمین بنتی ہے تو اس حساب سے 2 لاکھ 80 ہزار من گندم، گڑھ اور چینی ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس زمینوں کے ساتھ سیکڑوں افراد کی معاش جُڑی ہوئی تھی، وہ بھی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ان کے مطابق صوبے کے عوام پہلے ہی سے خوراک کی کمی سے دوچار ہیں اور پنجاب پر انخصار کر رہے ہیں تو یہ صورتحال مستقبل کیلئے مزید سنگین ہوجائے گی۔

زرعی زمینوں کو کمرشل پلاٹس میں تبدیل کرنے کے نقصانات

ماحولیات پر نظر رکھنے والے ماہرین تعمیراتی منصوبوں کی بڑی وجہ آبادی میں اضافہ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے مطابق درجہ حرارت میں اضافہ، خوراک کی کمی اور واٹر ٹیبل کا گر جانے جیسے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر حزب اللہ جان نے ٹی این این کو بتایا کہ جن زمینوں پر سبزہ اور فصلات موجود ہو تو قدرتی طور پر وہ سبزہ اور فصلات زمین سے پانی جذب کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پانی کا سائیکل مستقل طور پر برقرار رہتا ہے بلکہ روئے زمین پر زندگی جینے کیلئے یہی سبزہ کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرکے ماحول کو آکسیجن بھی فراہم کرتی ہے۔

ڈاکٹر خزب اللہ کہتے ہیں کہ دوسری بات یہ ہے کہ جب روئے زمین سے سبزہ ختم کیا جاتا ہے تو درجہ حرارت میں کافی حد تک اضافہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تعمیراتی کام کے دوران جس درجہ حرارت سے سیمنٹ، اینٹ اور دیگر اشیاء بنتی ہے تو وہ ماحول کو گرم رکھنے کا سبب بنتا ہے اس کے علاوہ اسی آبادی میں استعمال ہونے والے ائیرکنڈیشنز، ریفریجریٹرز اور درجہ حرارت پیدا کرنے والے دیگر اشیاء ماحول میں گرمی پیدا کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ زرعی زمینوں پر آبادیاں قائم کرنے کیلئے قوانین موجود ہیں مگر اس پر عمل درامد نہیں ہوتا اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو تحقیق کے مطابق 2025 تک درجہ حرارت میں 1 سنٹی گریڈ اور 2050 تک 4 ڈگری سنٹی گریڈ تک اضافہ ہوجائے گا جس کی وجہ سے کرہ ارض پر زندگی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔

ادھر دیگر تجزیہ کار زرعی زمینوں کی خاتمے کا وجہ آبادی میں اضافہ سمجھتے ہیں اور آبادی پر قابو پانے کیلئے اقدامات اُٹھانے کی تجویز دیتے ہیں۔

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق 2023 کے ساتویں مردم کے نتیجے میں ملک کی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جو کہ پچھلے مردم شماری میں 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔

چارسدہ کے سینئر صحافی سید شاہ رضا شاہ کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی فہرست میں پاکستان ان دس ممالک میں ایک ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار ہے لیکن ان کی نظر میں ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ آبادی میں اضافہ ہے۔

شاہ رضا شاہ کہتے ہیں کہ ہر دس سال بعد ہونے والی مردم شماری میں تقریباً 3 فیصد اضافہ ہوتا ہے، اس آبادی کو چھت اور گھر کی ضرورت ہو گی تو اس کے لئے ایک تو یہ کہ آبادی پر قابو پایا جائے دوسرا یہ کہ میگا پروجیکٹس کی بجائے چھوٹے چھوٹے تعمیراتی منصوبے بنانے پر توجہ دی جائے۔

شاہ رضا کہتے ہیں کہ اب بحریہ ٹاؤن، سٹی ہاؤسنگ، نوا سٹی وغیرہ جیسے بڑے بڑے منصوبوں میں اشرافیہ کروڑوں روپے کے پلاٹس خریدتے ہیں، اسی کی روک تھام کی ضرورت ہے، باقی آبادی پر جب آپ قابو پاتے نہیں تو ضروری ہے کہ غریب لوگ چھوٹے چھوٹے گھر خریدیں گے مگر بڑے بڑے گھروں کی بجلی، گیس کی اخراجات اتنے ہوں گے جو غریب لوگوں کی 50 گھروں کی برابر ہو گی تو اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کیلئے قواعد و ضوابط

ضلع چارسدہ کے تحصیل میونسپل ایڈمنسریشن (ٹی ایم اے) حکام کا کہنا ہے کہ چارسدہ میں میگا پروجیکٹس کے مالکان کے کاغذات میں کمی بیشی ہے جس پر انہیں نوٹسز بھی جاری کر دئے گئے ہیں۔

ٹی ایم اے کے ٹی او آر اقبال حسین نے ٹی این این کو بتایا کہ اس سے پہلے چارسدہ میں سٹی ہاؤسنگ تعمیری منصوبے کے مالکان نے پہلے مینی ریٹ 9 کے نام سے تقریباً 4 سو کنال پر تعمیر کیلئے این او سی لیا تھا جبکہ اب این او سی کے بغیر نام تبدیل کرکے تعمیرات شروع کئے ہیں جس پر انہیں نوٹس بھی دیا گیا ہے۔

ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر کیلئے خیبر پختونخوا کے نئی ضابطہ اخلاق اور رولز کے مطابق میگا ہاؤسنگ اسکیم( 500 کنال اراضی سے زیادہ) پر ٹیکس کی شرح دو کروڑ روپے ادا کرنے ہوتے ہیں، 2 سو سے 5 سو کنال تک 50 لاکھ روپے، 100 سے 200 سو کنال پر 25 لاکھ روپے، 50 سے 100 کنال پر پانچ لاکھ جبکہ 10 سے 50 کنال اراضی پر 2 لاکھ روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

رولز کے مطابق 50 سے 100 کنال تعمیراتی منصوبے میں 5 فیصد کُھلی (پارکس، مساجد، اور جنگلات)، اسی طرح سو سے اوپر 500 کنال کے میگا اسکیم تک کے زمین پر 7 فیصد کھلی جگہ اور 2 فیصد قبرستان، 5 سے 10 فیصد تک کمرشل مارکیٹس، 5 مرلہ سے 4 کنال تک کوڑا کرکٹ ڈالنے کیلئے جگہ، 30 سے 120 فٹ تک روڈز اور آبادی کی ضرورت کے مطابق بجلی کی گریڈ سٹیشن کیلئے زمین مختص کی جائے گی۔

ٹی او آر اقبال حسین نے بتایا کہ رولز کے مطابق ہاؤسنگ سوسائٹی کو گیس، بجلی اور پانی کی سہولیات فراہم کرنا متعلقہ سوسائٹی مالکان کے ذمے ہوتا ہے اور ان رولز پر عمل درآمد نہ کرنے والے مالکان کی پراپرٹی سیل بھی کیا جاسکتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button