ضمنی بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت کی وجوہات کیا ہیں؟
ہارون الرشید
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پاپند سلاسل یا پھر منظرعام سے غائب ہونے کے باوجود عمران خان کا بیانیہ اب بھی عوام میں مقبول ہے جس کا واضح ثبوت خیبرپختونخوا کی دوتحصیلوں متھرا(پشاور) اور حویلیاں (ایبٹ آباد)میں ہونے والے ضمنی انتخابات تھے کہ جس میں پی ٹی آئی ورکرز نے اپنے چیئرمین کی گرفتاری کے بعد سڑکوں پر نکلنے کی بجائے ووٹ کے ذریعے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا۔
ضمنی بلدیاتی انتخابات کے غیر حتمی نتائج
چھ اگست کو ہونے والے تحصیل کونسل متھرا کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے انعام اللہ خان 20 ہزار333 ووٹ لیکر نشست اپنے نام کر چکے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے رفیع اللہ 13 ہزار 564 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ جماعت اسلامی کے افتخار احمد9 ہزار 546 ووٹوں کیساتھ تیسرے، پیپلز پارٹی کے علی عباس خان 5ہزار 377 ووٹوں کیساتھ چوتھے، مسلم لیگ (ن) کے فضل اللہ3 ہزار 351 ووٹوں کیساتھ پانچویں اور عوامی نیشنل پارٹی کے عزیز غفار خان 2 ہزار 721 ووٹوں کیساتھ چھٹے نمبر پر رہے۔
گزشتہ انتخابات میں اسی تحصیل سے جے یو آئی ٹکٹ پر امیدوار فرید اللہ نے 22 ہزار ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی کے افتخار احمد نے15ہزار844ووٹ لئے تھے۔ پیپلز پارٹی علی عباس خان نے9ہزار835تیسری اور تحریک انصاف کے محمد احتشام خان نے9ہزار 681 ووٹ لیکر چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے عزیز غفار خان 8 ہزار 489 ووٹ لیکر پانچویں اور مسلم لیگ(ن) کے عظمت خان 6 ہزار 409 ووٹ لیکر چھٹے نمبر پر تھے۔تاہم ضمنی بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف واحد جماعت ثابت ہوئی ہے جن کے ووٹ بینک میں 10 ہزار 652 ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح تحصیل حویلیاں میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عزیزشیرخان نے 21 ہزارسے زائد ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی۔ پی ٹی آئی کے افتخارخان نے 18 ہزار 521 ووٹ لے کر دوسرے نمبرپر رہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج کودیکھاجائے تواس نشست پر بھی پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں دو ہزارسے زائد کااضافہ ہواہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کامیاب ہونے والے آزاد امیدوارعزیزشیرخان نے اپنے ٹوئٹرپیغام میں اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی جیتی ہوئی سیٹ عمران خان کوتحفے میں دینگے۔
تحریک انصاف کی مقبولیت کے حوالے سے پشاورکے سینئرصحافی لحاظ علی نے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ پولیس کی جانب سے مسلسل گرفتاریوں ،قیادت کے منظرعام سے ہٹنے اور ایف آئی آرز کے اندراج کے باوجود تحریک انصاف کمزورہونے کی بجائے مزیدمستحکم ہوگئی ہے۔ تحریک انصاف کے ورکرز نے حکومت کی جانب سے نومئی کے بیانیہ کوسنجیدگی سے نہیں لیا اور تمام تر ہراسمنٹ کے باوجود وہ اپنی پارٹی کے ساتھ جڑے رہے۔ عمران خان اورتحریک انصاف کی مرکزی وصوبائی قیادت کے خلاف درج کیسزسے متعلق پارٹی ورکرز کا خیال ہے کہ یہ محض انتقامی کارروائی ہے ،حقیقت سے دوردورتک اس کا واسطہ نہیں۔ عمران خان کابیانیہ اب بھی زورو شورسے انکے کارکنوں میں مقبول ہے۔ پی ٹی آئی کے بطن سے نکلنے والی دو جماعتیں استحکام پاکستان پارٹی اور پرویزخٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین عمران خان کی جماعت کو تاحال کس قسم کا نقصان نہیں پہنچاسکی۔
انہوں نے کہاکہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد عمران خان نے کئی محازوں پر سیاسی غلطیاں کیں لیکن پی ڈی ایم اورانکے اتحادی جماعتیں اپنی نالائقی کے باعث عمران خان کے خلاف متبادل بیانیہ تشکیل نہ دے سکی۔ حالیہ ضمنی بلدیاتی انتخابات کے دوران عمران خان کی گرفتاری اورپارٹی کے دیگررہنماﺅں کے خلاف درج پے درپے مقدمات کو بطورہمدردی کیش کیا گیا اور پی ٹی آئی عوام سے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سولہ ماہ کے اقتدارکے دوران پی ڈی ایم عمران خان کے مقابلے میں بیانیہ بنانے کی بات تو دوراس کے بیانیہ کاتوڑبھی نہیں کرسکی۔ انتخابات کے دوران مولانافضل الرحمن یہ واضح کرچکے ہیں کہ پی ڈی ایم محض حکومتی اتحاد ہے انتخابی اتحاد نہیں۔ ایسے میں جب عوامی نیشنل پارٹی جے یوآئی کو پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کوگاہے بگاہے تنقید کانشانہ بنارہی ہے عام انتخابات کے دوران انہیں کھل کرایساکہنے کا موقع ملے گا اورعمران خان کے ورکرز اسی نفاق کو کیش کرانے کی کوشش کرینگے۔
انہوں نے مزید بتایاکہ خیبرپختونخوامیں 19 دسمبر2021ء کے بلدیاتی انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کاخیال تھاکہ جسے بھی بلے کانشان ملے گا پارٹی نہ ہونے کے باوجود عوام اسے قبول کرے گی لیکن وہ نتائج پی ٹی آئی مخالف آئے دوسرے مرحلے کے دوران عبوری تنظیم سازی کی گئی ورکرز اورتنظیموں کو متحرک کیاگیا اوراسی منصوبہ بندی کے باعث 30 مارچ 2022کے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اپوزیشن جماعتوں کا دور دور تک کوئی آثار نظرنہیں آئے۔
لحاظ علی کہتے ہیں کہ عمران خان اگر طویل عرصے کے لئے جیل جاتے ہیں توپارٹی کی قیادت عبوری طور پر شاہ محمودقریشی کے کندھوں پرہوگی لیکن شاہد محمودقریشی بھی اپنی شخصیت کی بجائے عمران خان کے بیانیہ کو بیچنے کی کوشش کرے گا۔ وہ عوام کو بتائے گا ہمارے ساتھ ظلم ہورہاہے ہمیں انتقامی کارروائیوں کانشانہ بنایاجارہاہے ایسے میں عمران خان کے خلاف عدالتی سماعتوں کی ہلکی جھلک اس دوران ورکرز کےلئے ایک بڑے جلسے سے زیادہ ہوگی۔
پشاورکے ایک اور سینئرصحافی عرفان خان نے ٹی این این سے گفتگو میں بتایاکہ ضمنی انتخابات کے موقع پر پی ٹی آئی کی مقبولیت کی وجوہات یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی اینٹی اسٹبشلمنٹ بیانیہ یا نعرہ لگا ہے اس کو عوام نے پسند کیاہے۔ 1967-68 میں ذوالفقارعلی بھٹوجب پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھ رہے تھے توانہوں نے بھی یہی طرزسیاست اپنایا موجودہ سیاسی منظرنامے میں جب عمران خان اقتدارمیں تھے اورن لیگ زیرعتاب تھی تو اس دوران جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے اس میں زیادہ ترنشستیں ن لیگ کے حصے میں آئی اس وقت ہمدردی کاووٹ مسلم لیگ کے حق میں پڑتا رہا۔
انہوں نے کہا کہ طاقت کا استعمال کبھی بھی احسن اقدام نہیں سمجھا جاتا تحصیل متھرا میں عمران خان کے ساتھ لوگ کھڑے رہے ووٹرز کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ تحریک انصاف سے پرویز خٹک اورمحمودخان چلے گئے اگر اس وقت کے پی میں تحریک انصاف کے منتخب وفاقی وزراء،صوبائی وزراء، ایم این ایز وغیرہ چلے بھی جائیں پھربھی پی ٹی آئی باقی جماعتوں کے مقابلے میں ووٹ بینک برقراررکھے گی جس کی بڑی وجہ عمران خان کی شخصیت ہے۔ انہوں نے کہاکہ دیگرجماعتوں کے لئے بیٹ کوشکست دینا مشکل ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم متحرک ہے جسکی بدولت عمران خان کی ڈیجیٹل مقبولیت حقیقی مقبولیت میں تبدیل ہوچکی ہے پی ڈی ایم حکومت کی انتقامی کارروائیوں سے عمران خان کے حق میں لوگوں کی ہمدردیاں زیادہ ہوئیں۔
انکے مطابق تحصیل متھرا اور حویلیاں کے ضمنی انتخابات تمام سیاسی جماعتوں کے لئے ایک ٹیسٹ کیس تھا تحصیل متھرا کے نتائج دیکھے جائیں تو 26 فیصدٹرن آﺅٹ کے باوجود پی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ اور اسکا ووٹ بینک بڑھاہے۔ اس نشست پر کامیابی حاصل کرنے والاانعام اللہ ایک عام پی ٹی آئی کارکن ہے اسی حلقے سے پیپلزپارٹی کے کرامت اللہ چغرمٹی،جماعت اسلامی کے حافظ حشمت خان،جے یوآئی کے فرید اللہ ماضی میں اپنی نشستیں جیت چکے ہیں۔ اے این پی کا بھی یہاں اچھا خاصا سیاسی اثرورسوخ ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں نے مالداریاسیاسی قد کاٹھ رکھنے والوں کو مستردکیا۔ عام انتخابات کے موقع پر بھی پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ٹف ٹائم دے گی۔
عرفان خان مزید بتاتے ہیں کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کی 115 جنرل نشستوں پر بھی تحریک انصاف واحدسیاسی جماعت ہوگی جوہرحلقے سے اپنا امیدوار کھڑاکرے گی۔ دیکھاجائے تو صوبے کے بلدیاتی انتخابات کے دونوں مراحل میں جتنے بھی تحصیل تھے ڈیٹاکے مطابق جے یوآئی نے60تحصیلوں،ن لیگ نے30تحصیلوں،اے این پی نے40تحصیلوں، جماعت اسلامی نے35 تحصیلوں پراپنے امیدوارکھڑے کئے تھے۔ تحریک انصاف واحدپارٹی تھی کہ جس نے خیبرپختونخوامیں نہ صرف تمام حلقوں پر امیدوارکھڑے کئے بلکہ جس کو ٹکٹ نہیں ملے وہ آزادحیثیت سے مدمقابل تھے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی مستحکم پوزیشن کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں اپنے ووٹروں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکی جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کے لوگوں نے ووٹ ڈالنے کےلئے خود پولنگ اسٹیشنزکا رخ کیا۔