اگر والدین کی تربیت سے ایک بچہ ڈاکٹر اور انجینیئر بن سکتا ہے تو نمازی کیوں نہیں؟
رعناز
ہم ہمیشہ سے ایک جملہ سنتے ہوئے آرہے ہیں کہ بچوں کی تربیت کے لیے پہلی درسگاہ ماں اور باپ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کہیں جا کر بچہ مدرسے یا تعلیمی ادارے کا رخ کرتا ہے۔ سب سے پہلے بچہ جو بھی سیکھتا ہے وہ ماں باپ سے سیکھتا ہے۔ انہیں کو دیکھتا ہے اور انہی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو بات، جو حرکت والدین کرتے ہیں بچہ اسی کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
میں نے زیادہ تر نوٹ کیا ہے کہ اکثر والدین بچوں سے کہتے ہیں کہ آپ نے ڈاکٹر بننا ہے اور آپ نے انجینیئر ۔ماں باپ کی گود جو کہ اولاد کے لیے پہلی درسگاہ ہے، وہاں سے یہ تربیت شروع ہو جاتی ہے۔ شروع سے ہی ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے ؟ والدین کا تمام تر رجحان دنیاوی تعلیم کی طرف ہوتا ہے۔ دینی تعلیم کی طرف رجحان نہ ہونے کے برابر ہے جو کہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔ اگر والدین کی تربیت انہیں بچوں کو ڈاکٹر اور انجینیئر بنا سکتے ہیں تو نمازی کیوں نہیں؟ اگر والدین اپنے بچوں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہوم ورک کرو کیونکہ آپ نے ڈاکٹر اور انجینیئر بننا ہے تو یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ نماز پڑھو کیونکہ تم نے اپنی اخرت کو سنوارنا ہے؟
میں دنیاوی تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کر رہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی دینی لحاظ سے بھی اچھی تربیت ہونی چاہیے۔ ان بچوں کو نماز کی پابندی سکھائی جانی چاہیے۔ ان کو صراط مستقیم پر چلنے کا عادی بنانا چاہیے۔
بچے ہمیشہ اپنے والدین کا عکس ہوا کرتے ہیں۔ لہذا اگر والدین نمازی ہوں گے تو یقینا ان کے بچے بھی نماز کی پابندی کرتے ہوں گے۔ اگر ایک بچہ اپنے والدین کو نماز پڑھتے دیکھے گا تو یقینا اس کے دل میں بھی یہ خواہش اٹھ رہی ہوگی کہ میں نے بھی نماز پڑھنی ہے۔ میں نے اکثر بچوں کو دیکھا ہے کہ جب ماں یا باپ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو وہ ساتھ میں کھڑے ہو کے ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور یہ دیکھنے والوں کے لیے انتہائی پر لطف لمحہ ہوتا ہے۔
اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ والدین بچوں کو موبائل میں کارٹونز وغیرہ کی ویڈیو کھول کے دے دیتے ہیں۔ تو اگر والدین اس قسم کی ویڈیوز لگا کے دے سکتے ہیں تو اس کی جگہ پر اسلامی ویڈیوز کیوں نہیں ؟جیسے کہ نماز پڑھنے کی ویڈیو زیا قرانی ایات پڑھنے کی ویڈیوز وغیرہ۔
بچپن میں ایک بچے کا دل ایک صاف اور شفاف تختی کی مانند ہوتا ہے اس لیے جیسے ہی ماحول میں بچے کی نشوونما ہوگی بالکل ویسے ہی اثرات اس کے دل و دماغ پر نقش ہوں گے۔ انہیں کی نقش قدم پر وہ بچہ پھر آگے کی زندگی گزارتا ہے ۔لہذا یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیشہ بچوں کو خوشگوار اور اسلامی ماحول مہیا کرے ۔اگر والدین بچوں کے دل و دماغ میں یہ بات نقش کرتے ہیں کہ انہیں ڈاکٹر یا انجینیئر بننا ہے تو ساتھ میں یہ بات بھی نقش ہونی چاہیے کہ انکو نمازی بھی بننا ہے۔ ہمیشہ سیدھے راستے پر ہی چلنا ہے تب ہی کامیابی مل سکتی ہے۔
وہ اکثر کہتے ہیں نا کہ بچے کی صحیح تربیت کر دینا کروڑوں کا مالک بنا دینے سے بہتر ہے۔ اگر ایک باپ مسجد جاتے ہوئے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے جانے کا عادی بنائیں تو وہ بیٹا بڑا ہو کے کبھی بھی بے نمازی نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح اگر ایک ماں گھر میں نماز پڑھتے وقت اپنی بیٹی کو بھی اپنے ساتھ جائے نماز پہ کھڑا کرے تو وہ بیٹی کبھی بھی بے نمازی نہیں ہو سکتی۔
ہمیں اپنے بچوں کو یہ احساس دلانا چاہیے اور ان کی یہ تربیت کرنی چاہیے کہ جیسے ڈاکٹر اور انجینئر بننا دنیاوی ضرورت ہے بالکل اسی طرح نمازی بننا دینی اور اخروی ضرورت ہے۔
رعنا ز ٹیچر اور کپس کالج مردان کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔