افغانستان میں بیوہ عورت نکاح کا نام لے تو "بے شرم”
نور ضیاء
آج سکول سے آتے ہی میرے بھائی نے کہا کے آج میں نے اپنے استاد کے منہ سے کچھ سنا ہے جو کہ عجیب بھی ہے, اور بات مسلسل زہن میں بھی گھوم رہی ہے۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ: ” ہمارے تفسیر اور عقائد کے استاد نے کہا ہے کہ ایک بے شرم عورت شوہر کے مرنے کے بعد شادی کی خواہش ظاہر کرے گی۔ جو اچھی عورتیں ہوتیں ہیں وہ اپنی آخری سانس تک دوسری شادی کا نام نہیں لیتی.”
یہ بات مجھے بہت حیران کن معلوم ہوئی۔ اگر اللّہ پاک نے شوہر کے مرنے کے بعد عورت کو دوسری شادی کرنے کی اجازت دی ہے, تو ہم انسان کون ہوتے ہیں عورت کو اس بات پہ بے شرم کہنے والے؟
صرف یہ نہیں, اگر بیوہ عورت اچھے کپڑے پہنے یا زرا سی تیار ہو جائے, تو ہمارے پشتون معاشرے میں اسکو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ کیا مُردہ انسان کے ساتھ خود کو زندہ دفن کیا جائے؟
اگر خیال کیا جائے تو ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں پر ہمارا کلچر اور مذہب آپس میں اس طرح گل مل گئے ہیں کہ, انسان آسانی سے تفریق نہیں کر سکتا کہ یہ کلچر ہم سے ڈیمانڈ کرتا ہے یا مذہب یہ کہتا ہے. بس خود کو ٹھیک ثابت کرنے کے لیے تقریباً ہر بات کو اسلام کا نام دیتے ہیں.
اگر اسلامی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمارے پیارے نبی صلی اللّہ علیہ والہِ وسلم نے آٹھ بیوہ عورتوں سے شادی کی تھی اور وہ عورتیں دنیا کی پاکیزہ ترین عورتیں رہی. اگر مرد بیوی کے ہوتے ہوئے تین اور شادیاں کر کے بے شرم نہیں بن جاتا اور نہ ہی اسے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، تو بیوہ عورت کو شادی کی خواہش ظاہر کرنے پر عجیب وغریب لقبوں سے کیوں پکارا جاتا ہے؟ مسلمان ہوتے ہوئے ہمیں کس چیز کا زیادہ خیال رکھنا چاہیئے, کلچر یا مذہب کا؟
ایسی بہت سی عورتیں دیکھنے کو ملے گی جو صرف اس وجہ سے شادی کا نام نہیں لیتی کہ لوگ کیا کہیں گے اور لوگ اتنے اچھے بھی نہیں ہیں کہ بیوہ عورت کو اسکے بچوں سمیت سپورٹ کرے.
ہمارے پڑوس میں ایک بیوہ عورت چھوٹے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔ بچاری کو ہر کام کے لیے خود نکلنا پڑتا ہے. بجائے اس کے کہ اس پر رحم کیا جائے اسکو داد دی جائے سارے پڑوسیوں کے لیے وہ ایک انٹرسٹنگ موضوع ہے, کہ شوہر کیا مر گیا اسکے تو مزے ہو گئے. کسی شادی پہ جائے تو بھی اسکے کپڑوں پر لوگ انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ بیوہ کو دیکھو اور اس کے کپڑوں کو۔
بیوہ عورت آخر کرے تو کیا کرے؟ شادی نہ کرے تو بھی زندگی عذاب, اور کرے بھی تو لوگوں کی مسلسل باتیں اسکو قبر تک پہنچا دیتی ہیں۔
جب بیوی مر جاتی ہے شوہر تو چالیسوے تک کا بھی صبر نہیں کرتا۔ صرف یہ نہیں وہ تو بیوی کے ہوتے ہوئے بھی تین, چارشادیاں کرتا ہے کیونکہ اسلام اجازت دیتا ہے. سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرد کو تو ہمیشہ چار شادیوں کے وقت اسلام یاد آتا ہے لیکن جب بیوہ عورت نکاح کا نام لیتی ہے تو اُس وقت اِنکو اسلام یاد کیوں نہیں آتا؟
افغانستان کے بعض علاقوں میں تو رواج کچھ زیادہ انوکھا ہے: بیوہ عورت اپنے دیور کے علاہ کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی. یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ لڑکے کی عمر شادی کے قابل ہے بھی یا نہیں, یا عورت کی عمر زیادہ بڑی تو نہیں ہے. اکثر اوقات میں یا تو بڑی عمر والی بیوہ بھابھی کی شادی بہت کم عمر والے دیور سے کرا دی جاتی ہے یا بہت کم عمر والی بیوہ بھابھی کی شادی بہت بڑے عمر والے دیور سے کرا دی جاتی ہے۔
اس سے مجھے ایک دور کی رشتہ دار رشیدہ یاد آگئی جسکے شوہر کو ماں اور چھوٹے بھائی سمیت کسی نے قتل کیا تھا. رشیدہ شادی کرنا چاہتی تھی لیکن اسکا سُسر اسکی شادی صرف اسکے دیور سے کرنے کی اجات دے رہا تھا اور حال یہ تھا کہ اُسکا دیور تقریبًا پندرہ، سولہ سال کا تھا. مطلب عمر میں بھابی سے بہت زیادہ چھوٹا تھا. رشیدہ نے کہا کہ اسکے دیور کی عمر کے تو اسکے بچے ہیں لہذا وہ اِسکے ساتھ شادی نہیں کر سکتی. اس پر اُس کے سُسر نے کہا کہ وہ دیور کے علاوہ کسی سے بھی شادی نہیں کر سکتی, اور اگر اس نے کسی دوسرے شخص سے شادی کی تو اُسکو بھی قتل کر دیا جائے گا. بس اس کے بعد رشیدہ نے اپنا منہ بند رکھا.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رشیدہ نہ تو تعلیم یافتہ تھی اور نہ ہی اسکے بچے بڑے تھے تو وہ ضروریات پورا کرنے کے لیے کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتی آرہی ہو گی؟
انسان, مسلمان, اور پھر افغان ہونے کے ناطے عورت کو اسکے حقوق دیے جائے۔ اسکو کمتر نہ سمجھا جائے۔ اسکے شوہر کے موت کے ساتھ سارے خواب ٹوٹ جاتے ہیں اس پر مزید ظلم نہ کیا جائے۔ اسکو سکون کے ساتھ رہنے دیا جائے۔ جسطرح مرد کو دوسری, تیسری, اور چوتھی شادی کی اجازت ہے بالکل اسی طرح عورت کو بھی شوہر کے مرنے کے بعد شادی کرنے کی اجازت ملنی چاہئے۔