ابراہیم خان
وفاقی حکومت نے آخر کار حکومت کی رخصتی کی تاریخ جاری کردی۔ وزیر اعظم کے مطابق حکومت 11 اگست کو گھر چلی جائے گی۔ حکومت کی آئینی مدت تو 12 اگست تک ہے لیکن یہ تاریخ اس وجہ سے دی جارہی ہے تاکہ ایک دن پہلے اسمبلیاں توڑنے سے عام انتخابات کا انعقاد 30 روز تک مزید آگے چلا جائے۔ حکومت جانے کا وقت جوں جوں قریب تر ہو رہا ہے توں توں اتحادی حکومت بالخصوص مسلم لیگ نون پر طاری بد حواسی بڑھ رہی ہے۔ حکومتی رخصتی کی الٹی گنتی شروع ہونے کے بعد ہر چال الٹا گلے پڑ رہی ہے۔ اس تاریخ کو ہی لے لیجئے، اس میں بھی بد حواسی واضح ہے۔
آئین کی رو سے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس وزیراعظم صدر مملکت کو بھیجیں گے تو صدر کے پاس 72 گھںٹے تک اس ایڈوائس کو اپنے پاس رکھنے کا اختیار ہے۔ اس مدت تک اگر صدر وزیراعظم کی سمری پر دستخط نہیں کرتے تو 72 گھنٹے کے بعد قومی اسمبلی ازخود ٹوٹ جائے گی۔ اس اعتبار سے اگر وزیراعظم 11 اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری صدر کو بھیجتے ہیں اور وہ اسے مذکورہ مدت یا 12 اگست تک اپنے پاس رکھتے ہیں تو ایسی صورت میں اسمبلی کی مدت پوری تصور کی جائے گی جس کے نتیجے میں پھر آئین کے تحت انتخابات 60 روز کے اندر کرانا لازمی ہوں گے۔
اس لئے غالب امکان یہ ہے کہ وزیر اعظم 9 اگست کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھیج دیں گے تو یہ 90 دن والی سہولت انہیں مل جائے گی۔ یہاں برسبیل تذکرہ یہ بات بھی بر محل ہوگی کہ صدر عارف علوی جب فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب میں تھے تو حکومت نے قائمقام صدر صادق سنجرانی کے ذریعے یہ آدڈیننس جاری کروالیا جس میں انتخابات کی تاریخ دینے کیلئے صدر سے اختیار لے کر اب الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ دے گی۔ اس اعتبار سے تو اب الیکشن کمیشن کی مرضی ہوگی کہ وہ جب چاہے انتخابات کرائے لیکن حکومت اتمام حجت کے طور پر ہی سہی اسمبلی 11 اگست پہلے توڑسکتی ہے۔
حکومت اندرونی طور پر زبردست افراتفری کا شکار ہے۔ اس کی بد حواسیوں کاکارن یہ ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے، حکومت نے جانے سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ہر صورت نااہل کرنا تھا۔ اس مقصد کیلئے پہلے 9 مئی اور توشہ خانے کو آخری پتے کے پر رکھا گیا لیکن 9 اور10 مئی کو عمران خان کے پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے حکومتی دانشوروں نے مریم نواز کے مبینہ اصرار پر پھر توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل کرنے کی ہاں میں ہاں ملائی۔ توشہ خانہ کا آپشن اس لیے فائنل کیا گیا کہ عدالتوں نے مریم کے ابا نواز شریف کو سسیلین مافیا سے تشبیہ دی تھی اور یہ تاثر مغرب اور امریکہ میں آج تک نواز شریف کے ساتھ نتھی ہے۔ اس بنیاد پر شہزادی مریم کا اصرار تھا کہ اس کے ابا کی طرح قاسم کے ابا بھی عدالت کے ذریعے بدعنوان قرار دئے جائیں تاکہ بیرونی دنیا میں نوازشریف کی طرح عمران خان کے نام کے ساتھ بھی بدعنوان کا ٹھپہ لگ جائے۔
شہزادی مریم نواز کے مبینہ اصرار پر عدالتی شیڈول ہی بدل دیا گیا۔ عمران خان کا توشہ خانہ کیس بھی چن کر جج ہمایون دلاور کی عدالت میں لگایا۔ یہ جج جن کی فیس بک کی پوسٹس میں عمران خان کے خلاف بہت سارا مواد موجود تھا، سے ان کا عمران خان مخالف جھکاؤ عیاں تھا۔ ایسے جج کے سامنے عمران خان کا کیس لگایا گیا۔جج ہمایون دلاور سالانہ چھٹیوں پر تھے لیکن اس کے باوجود جولائی کے آخری ایام میں نیا عدالتی روسٹر جاری ہوا جس میں ان کو یکم سے پانچ اگست تک حاضر کروالیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے جج ہمایون دلاور پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا گیا لیکن اس کے باوجود توشہ خانہ کیس کی سماعت ہمایون دلاور کی عدالت میں ہی جاری ہے۔اس کیس کے دوران جو نوک جھونک جج اور وکلاء کے درمیان دیکھی جا رہی ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے۔اس مقدمے کی سماعت میں غیر معمولی عجلت اس بات کا ثبوت ہے کہ عدالت عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں بدعنوان قرار دینے کے لئے اتاولی دکھائی دے رہی ہے۔جج ہمایون دلاور چھ اگست سے چھٹی پر جارہے ہیں اس لئے غالب امکان یہی تھا کہ اس مقدمے کا فیصلہ پانچ اگست تک ہو جائے گا۔
توشہ خانہ کیس میں اب ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے پانچ اگست تک اس مقدمے کا فیصلہ شائد نہ ہوپائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ کے تحائف کی قیمت کا اندازہ لگانے والے عسکری افسر کا نام لے دیا ہے۔ بات صرف نام لینے تک محدود نہیں رہی بلکہ عمران خان کی طرف سے عدالت سے یہ اصرار کیا گیا ہے کہ ان کے سابق ملٹری سیکرٹری کو عدالت میں بطور گواہ پیش کیا جائے۔عمران خان کے سابق ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر چیمہ تھے جو اب ترقی پا کر پاک فوج کے میجر جنرل بن چکے ہیں۔ اس بارے میں اس سے پہلے عمران خان نے خاموشی اختیار کئے رکھی لیکن وہ کئی بار یہ انتباہ کر چکے تھے کہ اس کیس پر اصرار نہ کیا جائے، بصورت دیگر وہ ان ناموں کو لینے پر مجبور ہو جائیں گے جو وہ نہیں لینا چاہتے۔ عدالت کے روبرو عمران خان کے اس نئے انکشاف کے بعد عام تاثر یہی ہے کہ مقدمے کی صورتحال اب بدل چکی ہے۔توشہ خانہ کی نوعیت کے کیسز میں عام طور پر یہ روایت رہی ہے کہ فریق مخالف اپنی صفائی میں گواہ نہیں لاتا، اور زیادہ تر یہی طریقہ رائج ہے کہ سرکار اپنے گواہ پیش کرتی ہے۔ تاہم اس مقدمے میں اس نئے موڑنے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے حکومت کی بد حواسی مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کے پاس حکومتی اختیارات کے حامل اب صرف نو آئینی دن باقی رہ گئے ہیں، ان ایام میں اگر حکومت عمران خان کو بدعنوانی کے کسی مقدمے میں بدعنوان قرار نہیں دلوا پائی تو گویا وہ نواز شریف کی طرح” لیول پلینئگ فیلڈ” حاصل نہیں کر پائےگی۔
ان مقدمات کے حوالے سے اب صورتحال بہت دلچسپ ہو گئی ہے۔مسلم لیگ نون کے اندر خاص طور پر موجودہ حالات میں خاصی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ذرائع بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ان حالات میں بہت سیخ پا ہیں۔ میاں نواز شریف اپنے بھائی ( شہباز شریف )کی کارکردگی سے ناخوش دکھائی دے رہے ہیں کہ, 15 مہینے کی حکومت کے باوجود عمران خان کو کسی بھی کیس میں اس طرح نااہل نہیں کیا جا رہا جس کی خواہش میاں نواز شریف یا ان کی صاحبزادی کر رہی تھیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں نو مئی کے واقعات میں ملوث سویلین افراد پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے لئے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے، فل کورٹ کی استدعا مسترد کر دی۔ اس استدعا کے مسترد کرنے سے اب توقع پیدا ہو گئی ہے کہ اس مقدمے کا بھی جلد فیصلہ ہو جائے گا۔ اس مقدمے میں دلچسپ موڑ اس وقت یہ دیکھا جا رہا ہے کہ حکومت چاہ رہی ہے کہ اس مقدمے کو زیادہ طول دے کر اگلے چیف جسٹس کے انے تک اسے التواء میں رکھا جائے۔حکومت کی یہ خواہش بھی بظاہر پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی جس کی وجہ سے اس کی بد حواسی مزید بڑھ رہی ہے۔
حکومتی بدحواسی کا منہ بولتا ثبوت قومی اسمبلی میں پیش کیاجانے والا آفیشل سیکرٹ ایکٹ بھی ہے ،جس میں ایک صدی کے بعد ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 انگریز دور کا وہ قانون ہے جس میں انگریز حکام نے برصغیر پاک و ہند جیسی اپنی نو ابادی ریاست کو قابو میں کرنے کے لئے انتہائی ظالمانہ اقدامات پر مبنی یہ قانون بنایا تھا۔ اس بل کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا جائے۔دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی نو آبادیاتی نظام رائج تھا وہاں انگریزوں کے جانے کے بعد ان قوانین کو نرم کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایک صدی کے بعد ان قوانین کو اس انداز سے مزید سخت کیا جا رہا ہے،جیسے یہاں انگریز دور سے بھی زیادہ سخت حکمران حکومت کرنے آگئے ہیں۔ یہ اقدامات حکومتی بدحواسیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔حکومتی بدحواسیوں کی یہ سیریز یہاں ختم نہیں ہوگی بلکہ غالب امکان یہی ہے کہ اس سیریز میں اگلے نو دن تک مزید بدحواسیاں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔